اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
یعنی جس میں ہمت نہیں ہوتی حوصلہ نہیں ہوتا وہ دھمکی میں مر جاتا ہے بلکہ دوسروں کی غضبناک نگاہوں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا اور اُس کا سانس رک جاتا ہے اور کہتے بھی ہیں کہ دیکھو سانس مت نکالو۔سایہ پڑ جانا ہم سایہ کو بہت پُر اسرار اور بھید بھرا سمجھتے ہیں پرچھائیوں کو اِسی زُمرے میں رکھتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ کس کی پرچھائی پڑ گئی سایہ ہو جانا جن بھُوتوں کا اثر ہو جانا ہے گلزارِ نسیم کا مصرعہ ہے۔ سایہ ہو تو دوڑ دھوپ کیجئے سایہ سر سے اٹھنا یعنی اگر اوپَر کے پرایہ کا سایہ پڑ گیا ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے یہاں توہم پرستی کہ ذیل میں جو باتیں آتی ہیں اُن میں سایہ پڑنا بھی ہے نظر لگنے سے سایہ پڑنے تک توہم پرستانہ خیالات کا ایک سلسلہ ہے جس میں لوگ عقیدہ رکھتے ہیں اور طرح طرح سے یہ باتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور سماج کے مطالعہ میں مدد دیتی ہیں سایہ سر سے اٹھنا یتیم ہو جانا بزرگوں کی سرپرستی مہربانی اور عنایت کا۔سب چیز کی لہر بہر ہے اصل میں ہمارے معاشرے میں کمی بہت تھی غریب طبقہ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ گھڑے پر پیالہ بھی نہیں کئی محاورے اِس صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے میں نے روٹی پہ روٹی رکھ کے کھائی جس کا یہ مطلب ہے کہ بعض خاندانوں میں اتنی غربت ہوتی تھی کہ ایک ایک روٹی مشکل سے میسر آتی تھی اور روٹی پر روٹی رکھ کر کھانا تو معاشرتی طور پر خوش حال ہونا تھا سوکھے ٹکرے پانی میں بھگو کر کھانا بھی ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حصّہ رہا ہے۔ روکھی روٹی کا ذکر اب تک آتا ہے سالن بھی مشکل سے میسر آتا تھا گھی، پیسے چُپڑی ہوئی روٹی کسی کسی کے حصّہ میں آتی ہو گی۔ دیہات کی ایک مثل ہے جاڑا لگے یا پالا لگٹے دم کھچڑی فَنڈوے کی روٹی گھی چپڑی یعنی دم کی ہوئی کھچڑی اور فنڈوے کی روٹی کے لئے ترستے تھے اور