اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
دھونس دیہاتی زبان میں نقّارے کو کہتے ہیں اور نقارہ شہرت و اقتدار اور انتظام کی ایک علامت کے اعلان کے بھی ہیں اسی لئے نوبت ونشان بادشاہی حکومت کی نشانیاں ہوتی ہیں ۔ نوبت نقارہ ہی کو کہتے ہیں ۔ یہاں سے گزر کر دھونس ایک نئے معنی اور نئے پس منظر کے ساتھ ہمارے محاورہ میں استعمال ہوتا ہے اور جب ہم دھونس دینا کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی شخص زبردستی اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور اپنی بات کا پریشر ڈالنا چاہتا ہے۔ دیہات والے بھی دھونس دینے کو اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں شہر کے عام لوگوں کی زبان پربھی یہ محاورہ اسی معنی میں آتا ہے اور اُس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سماج میں اچھے بُرے لوگوں کا رو یہ کیا کیا شکلیں اختیار کرتا ہے تو دھونس دینا دھونس نہیں لینا یا دھونس میں آ جانا انہی سماجی رویوں اور اُن کے اثرات کی طرف اشارہ ہے۔دھینگا دھینگی کرنا دھینگا مُشتی کرنے کو بھی کہتے ہیں اور یہ اسی طرح کا ایک عمل ہے جیسے دھول دھیّا کرنا جو عام لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے جھگڑنے کے لئے تیا رہو جاتے ہیں ۔ یہاں ہم ایک بار پھر اس طرف توجہ دینے پر مجبور ہوتے ہیں کہ محاورات دراصل ہمارے سماج کے رویوں کا مطالعہ ہے کیونکہ وہ عام زبان میں ہے اور عوامی بولی ٹھولی کا حصّہ ہے اس لئے اس کا احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے سماجی رویوں کے کون کون سے پہلو ایسے ہیں جو ہمارے محاورے جن پر روشنی ڈالتے ہیں اور Comment کرتے ہیں ۔دید نہ شنید دونوں لفظ فارسی کے ہیں "دیدن" کے معنی دیکھنا اور شنیدن کے معنی سننا عام طور پر اس زمانہ میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا آدمی تمام تر بھروسہ اپنی معلومات کے لئے دیکھنے پر کرتا تھا یا سننے پر اسی لئے لوگ یہ کہتے نظر آتے تھے کہ نہ کہیں دیکھا نہ سنا لکھنے پڑھنے کا ذکر ہی نہیں آتا۔ اس سے ہم اپنے گزرے ہوئے زمانہ کی تہذیبی فضاء کو جان سکتے ہیں اور یہ بھی کہ فارسی