اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
رگ پٹھے سے واقف ہونا، رگ و ریشہ میں پڑنا یہ محاورہ حکیموں یا پہلوانوں کا ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ رگ پٹھوں سے واقف ہونا انہی کا پیشے کا تقاضہ ہے۔ لیکن ہماری سماجی زندگی میں بھی یہ محاورہ داخل ہے اور اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ میں ان سے اچھی طرح واقف ہوں ۔ خوب جانتا ہوں ۔ آدمی اپنے آپ کو طرح طرح کے نقابوں میں چھُپانا چاہتا ہے اسی کا جواب سماج کے دوسرے افراد کی طرف سے یہ آتا ہے کہ وہ ہم سے نہیں چھُپ سکتے۔ داغ کا مصرعہ ہے۔ وہ ہم سے بھی چھپیں گے وہ کہاں کے ایسے ہیں اور اسی لئے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو ان کے رگ و ریشے سے یا رگ پٹھوں سے واقف ہیں یعنی ایک ایک بھید جانتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو شخصی، جماعتی یا خاندانی راز چھُپائے جاتے ہیں ۔ مصلحتیں اسی میں ہوتی ہیں مگر عزیزوں رشتے داروں ملنے جلنے والوں یہاں تک کہ پاس پڑوس والوں کی یہ خوشی اور خواہش رہتی ہے کہ وہ ایک ایک بات کو جانیں یہ ہمارا معاشرتی انداز نظر ہے ایک حد تک اور خاص خاص موقعوں پر یہ ضروری بھی ہو سکتا ہے لیکن معاشرہ میں اس رو یہ کی عمومیت اچھی بات نہیں ہوتی۔رنگ چڑھنا، رنگ جمنا یا جمانا، رنگ دیکھنا رنگ پھیکا پڑنا، وغیرہ رنگ ہمارا ایک تہذیبی لفظ ہے مختلف تہذیبی رویوں کے ساتھ رنگ وابستہ بھی ہوتے ہیں ۔ رنگوں کا احساس اور اُس کا الگ الگ ہونا فطرت کی دین ہے جنگلوں کا رنگ پھولوں پھلوں کا رنگ پتھروں اور پانیوں کا رنگ ہمیں قدرت کی رنگا رنگی کا احساس دلاتا ہے رنگ بکھرنا رنگ پھیلنا رنگ اڑنا رنگ پھیکا پڑنا جیسے محاورے رنگ ہی سے وابستہ ہیں بعض محاورے ہماری معاشرتی زندگی اور اُس کے ذہنی رویوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں ۔ رنگ جمانا ایسا ہی ایک محاورہ ہے کہ دوسروں میں اپنی کوشش خواہش اور عمل سے اپنے بارے میں ایک احساس پیدا کرنا۔ رنگ جمنا بھی اسی صورت کی طرف