اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کسی کو گنجا کہتے ہیں تو اس سے مراد اس کے سرکے بال اڑنے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ گنجے کو خدا ناخن نہ دے اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی عیب دار آدمی کو اگر کوئی قوت حاصل ہو گئی کوئی موقع ہاتھ آگیا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا گنج شہیداں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کسی جنگ میں شہید ہونے والے بہت سے لوگ دفن کر دیئے جاتے ہیں ۔ گنج قارون، قارون ایک کلاسیکی کردار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مصر کے کسی بادشاہ کا وزیر مالیات تھا اور اتنا مالدار تھا کہ اُس کا خزانہ اونٹوں پر لد کر جاتا تھا اور کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اس کی چابیاں اتنی تھیں کہ وہ اونٹوں پر لد کر جاتی تھیں یہ مبالغہ ہے اور داستانی انداز میں پیش کیا گیا ہے لیکن قدیم زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ ان کے خزانوں کا بھی ذکر آتا ہے جیسے خسرو پرویز کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس سات خزانہ تھے ایک کا نام گنج شائیگاں تھا دوسرے کا نام گنج رائیگاں وغیرہ اس سے یہ پتہ چلا کہ محاورے ہماری روایتوں کو محفوظ کرتے ہیں اور محاورات میں ڈھل کر یہ روایتیں ہمارے سماجی حافظہ کا حصّہ بن جاتے ہیں ۔گنگا جمنی، گنگا نہانا گنگا ہندوستان کا مقدس دریا ہے ممکن ہے دراوڑوں کے زمانہ میں بھی اِسے مقدس خیال کیا جاتا ہو لیکن آریاؤں کے دور میں تو رفتہ رفتہ اُس کی پوجا ہونے لگی اور اس کو ہر ہر گنگے کہا جانے لگا اس سے نگاہ کے ساتھ پاکیزگی اور مذہبی تقدس وابستہ ہو گیا اور اسی لئے گنگا کا پانی اس تقدس کی ایک علامت بن گیا۔ اسی لئے پھول گنگا میں پھینکے جاتے ہیں اور بھجن پیش کئے جاتے ہیں ۔ گنگا میں نہانے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کا بدن اور اُس کی روح پاک ہو گئی تو جب بڑے کام سمٹ جاتے ہیں تو محاورے کے طور پر کہا جا تا ہے کہ تم تو گنگا نہا لئے یعنی ساری الجھنوں اور ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے اب ہر طرح پاک صاف ہیں اور آزاد ہیں ۔ الہ آباد کے قریب وہ مقام ہے جس کو پریاگ کہتے ہیں جہاں گنگا اور جمنا دونوں ایک الگ ندیاں مل جاتی ہیں اور بہت دُور تک پانیوں کے دھارے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں ۔ اور دونوں کے الگ الگ رنگ پہچانے جاتے ہیں اسی کو ہم