اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
مگر عوامی محاورے نے ان آوازوں کو جو نسبتاً ثقیل آوازیں تھیں ، ہماری زبان میں باقی رکھا ہے۔آزاد کا سونٹا (فقیر) فقیر پابند نہیں ہوتے؛ نہ گھر بار کے، نہ عزیز داری، نہ رشتہ داری کے۔ کاروبار وہ کرتے ہی نہیں ۔ جب جو مل گیا وہ کھا لیا، نہ ملا تو صبر کیا۔ ایسی زندگی سماجی اعتبار سے مشکل ہی سے نبھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگوں کا ایک طبقہ رہا ضرور ہے۔ اقبال کا یہ مشہور شعر انہیں آزاد طبع لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربیگھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں ، نہ سمرقند فقیر کا سونٹا ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑی آزادی سے اس کا استعمال کرتا ہے۔ بھنگ گھونٹتا ہے، کڑا بجاتا ہے، بلّی کتّے کو بھگاتا ہے، اپنے دشمن کا سر پھوڑتا ہے۔ اس معنی میں ہمارے معاشرے میں ایسے شخص کی زبان کو جو اپنے لب و لہجے پر قابو نہیں رکھتا، "آزاد کا سونٹا" یا"فقیر کا سونٹا" کہتے ہیں ۔اِزار بند ی کا رشتہ یا اِزار بند کا رشتہ۔ کمر بندی رشتہ اسے عام زبان میں کمر بندی رشتہ بھی کہتے ہیں ۔ یہ شادی، بیاہ کا رشتہ ہوتا ہے جس میں جنسی رشتے کو دخل ہوتا ہے۔ اِزار پائجامہ کو کہتے ہیں ۔ اسی لیے ایسے رشتے جو جنس و جذبے سے تعلق رکھتے ہیں ، اُن کو اِزار سے نسبت دی جاتی ہے اور سماجی طور پر انسان کی جذباتی کمزوریوں کا ذکر بھی اسی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ "اِزار کا کچّا"، "اِزار کا ڈھِیلا" یا"اِزار کی ڈھیلی"، اسی نسبت سے مرد اور عورت کے لیے کہتے ہیں ۔ اب یہ محاورے عام نہیں ہیں ۔ ان کا استعمال بہت کم ہو تا چلا گیا ہے۔ لیکن آج بھی اُن سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں نے تشبیہ و استعارے یا اشارے و کنایے میں ہمارے سماجی رویّوں یا معاشرتی سطح پر عمل اور ردِ عمل کو محفوظ کر دیا ہے۔ "ازار میں پہن لیا" یا"ازار میں ڈال کر پہن لینا"