اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
چیزوں کی بھینٹ دینا قدیم زمانے سے انسانی معاشرے کی ایک رسم رہی ہے۔ اِس میں چوڑیاں چڑھانا چوٹیاں شاخوں میں باندھ دینا بالوں کو بھینٹ دینا زیورات بھینٹ کرنا اور مٹھائیاں چڑھانا یا روپے پیسہ چڑھاوے کے طور پر نظر کرنا ہماری عمومی رسموں میں شامل ہے یہاں تک کہ ہم دریاؤں کو بھی بھینٹ دیتے ہیں پانی کے تالابوں اور کھیتوں کو بھی بھینٹ دیتے ہیں اسی طرح مندروں مسجدوں کے طاق بھرے جاتے ہیں ۔ چراغ چڑھائے جاتے ہیں تیل دیا جاتا ہے یہ زیادہ تر عورتوں کی رسمیں ہیں "طاق بھرنا" تو یہ کہتے ہیں کہ خالصتاً نسوانی رسم ہے۔ طاق پر رکھنا اس سے بالکل مختلف ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں بھُول جانا دھیان نہ دینا۔ ہمارے یہاں چیزوں کو رکھنے جس میں پیسے بھی شامل ہیں چھوٹے بڑے طاق ہی کام میں آتے تھے اور اُن پر رکھ کر کبھی گھرکے لوگ بھول بھی جاتے تھے یہیں سے طاق پر رکھنے کا محاورہ بھول جانے اور فراموش کر دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ طاق محل کو بھی کہتے ہیں اور ایک (Single) عدد کو بھی جیسے ایک تین پانچ سات اور نو یہیں سے"طاق" ہونے کا محاورہ بنا کہ وہ اپنے اپنے کام میں ماہر اور اپنی ہنر مندی میں طاق ہے یعنی بے جوڑ ہے منفرد ہے۔طالع چمکنا علمِ نجوم میں ستاروں کا رشتہ انسان کی قسمت سے بھی جُڑا رہتا ہے اور اسی کے مطابق جنم پتری تیار کی جاتی ہے۔ جس میں پیدائش کے وقت جو ستارے مل رہے ہوتے ہیں اُن کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور آئندہ زندگی پر جُو اس کے اثرات ہونے والے ہیں اُن کی طرف اشارے کئے جاتے ہیں ۔ "طالع" کے معنی ہیں طلوع ہونا، نکلنا اب کسی کی پیدائش کے وقت جو ستارے نکل رہے ہوتے ہیں وہی اِس کے طالع کہلاتے ہیں ۔ جو قسمت کے ستارے ہوتے ہیں یہ مبارک بھی ہو سکتے ہیں اور نہ مبارک بھی اسی لئے طالع مسعود اور نا مسعود کہلاتے ہیں اُردو میں جو لوگ ادبی زبان بولتے ہیں وہ اِن لفظوں کا استعمال بھی کرتے ہیں اور یہ ہمارے تہذیبی ماحول کا ایک حصّہ ہے۔ اور ہماری سوچ کا ایک انداز ہے۔طباق سا منہ ہونا