اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہے۔ اب اگر وہی ناؤ کے دریا میں ڈبونے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کی فریاد کس سے کی جائے اسی لئے یہ محاورہ آتا ہے کہ یہ ناؤ کس نے ڈبوئی خِضر نے اب یہ شکایت ہو تو کس سے ہو یہ ایسا ہی مفہوم ہے جیسے کوئی کہے کہ جب کعبہ سے کفر اُٹھنے لگے تو مُسلمانی کہاں رہے گی فارسی کا مصرعہ ہے۔ چَوکفر از کعبہ برخیز زد کُجا ماند مُسلمانی یہ گویا اُن اداروں اور اُن لوگوں پر طنز ہے جو کسی بات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور جس نے روشنی و رہنمائی کی توقع کی جاتی ہے مگر ان کا عمل توقع کے بالکل برخلاف ہوتا ہے تبھی تو خِضر ناؤ ڈبوتے ہیں ۔ اور کعبہ سے کُفر اٹھتا ہے۔نخاس کی گھوڑی، نخاس والیاں پہلے زمانہ میں جب گھوڑوں کی بڑی اہمیت تھی تو گھوڑوں کے بازار لگتے تھے عام طور پر پولیس فوج اور رئیسوں کی سواری کے لئے گھوڑے ہی خریدے جاتے تھے لیکن گھروں میں باندھنے کے لئے گھوڑیاں خریدتے تھے اور انہیں نخاس کی گھوڑی کہتے تھے جس کے معنی ایک طرح سے بازاری عورت کے بھی ہوتے تھے۔ بازاری عورتوں کو اگر گھرمیں ڈال لیا جاتا تھا تو اسے اچھی نظر سے دیکھا نہیں جاتا تھا اکثر بازاری عورتوں سے گھروں کی پردہ نشین عورتیں پردہ کرتی تھیں ایسی عورتوں کا عمل دخل دیوان خانوں یا بیٹھکوں تک محدود ہوتا تھا۔ جو رئیس ان سے تعلق رکھتے تھے وہ انہیں اپنی حَرم سرا یا زنان خانہ میں نہیں بلاتے تھے نخاس کی گھوڑی جیسا طنز عورتوں ہی کی طرف سے ہوتا ہو گا جس کے ذریعہ ہم آج بھی اِس سماج کے ذہنی عمل اور ردِ عمل کو سمجھ سکتے ہیں نخاس والیاں کے معنی بھی یہی ہے لکھنؤ کے ایک بازار کا نام"نخاسہ" ہے لیکن وہاں اب گھوڑے نہیں بکتے اور نہ بازاری عورتیں رہتی ہیں ۔نخرہ بگھارنا، نخرہ میں تُلنا ہمارے سماجی رویوں میں ایک رو یہ نخرہ کرنا بھی ہے یعنی خوامخواہ ناز دکھانا اور اپنی قدر و قیمت کو بڑھانا ہے ہمارے معاشرہ میں اس طرح کا انداز آج بھی پا یا جاتا ہے کہ اولاد بیوی اور ساس خوامخواہ نخرہ کرتی ہے۔ نخرہ میں کوئی معقولیت نہیں ہوتی ناز و ادا دکھانے کا بھی کوئی سلیقہ طریقہ نخرہ دکھانے میں