اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا (بہت ہوتا ہے) ڈوب مرنا ڈوبنا ہمارے ایسے الفاظ میں سے ہے جو سماجی حقائق میں سے روشنی ڈالتے ہیں دیہات قصبات کے لوگ"ڈوبے ڈھیری" کہتے ہیں جس کے معنی ہیں اُس کا قصّہ ختم ہو گیا۔ جب ہاتھ اُدھار کی رقم واپس نہیں آتی تو اُسے رقم ڈوب جانا کہتے ہیں نقصان کی صُورت میں بھی رقم ڈوبنے کا ذکر آتا ہے۔ اسی طرح گھر ڈوب گیا تباہی کے معنی میں آتا ہے یا پھر بہہ جانے کے معنی میں آتا ہے۔ اُردو کا ایک مصرعہ ہے۔ ایسا برسا ٹوٹ کے بادل، ڈوب چلا میخانہ بھی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے جب شخصی وجود خطرہ میں پڑ گیا ہو اور سہارا ملنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ دوسروں کے غیر مخلصانہ رویوں کی وجہ سے آدمی کسی پراعتماد بھی نہ کر سکتا ہو ایسے بُرے وقت میں کوئی کمزور سے کمزور سہارا بھی آدمی کو بڑی بات نظر آتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ڈوبنے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے بلکہ واقعتاً وہ سہارا کچھ نہیں ہوتا ایک نفسیاتی عمل ہوتا ہے اور بس۔ڈھاک کے تین پات، ڈھائی دن کی بادشاہت، ڈھائی گھڑی کی آنا ڈھاک ہمارے اپنے علاقہ کے معروف درختوں میں ہے جس کے جنگل کے جنگل کھڑے رہتے تھے اور" ٹیسو کے پھول" ڈھاک ہی کے پھول ہوتے ہیں ۔ اِس کا اپنا خاص رنگ ہوتا ہے یہ داؤں میں کام آتے ہیں ڈھاک کے پتے سودا سلف کے کام آتے تھے گوشت اسی میں رکھ کر دیتے تھے اور"پھول" اور"ہا ر" وغیرہ انہی پتوں میں رکھ کر دیئے جاتے تھے لیکن ڈھاک نے ہمیں ایک عجیب محاورہ دیا اور وہ ڈھاک کے تین پات رہ گئے اس لئے کہ ڈھاک کے تین ہی پات ہوتے ہیں اور ہمارے معاشرہ میں کچھ ایسا ہے کہ اکثر کوششیں نا کام ہوتی ہیں اور کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا ایسے ہی موقع پر ڈھاک کے تین پات کہتے ہیں ۔ڈھائی چلّو لہو پینا یا پلانا، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد چُننا