اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
غصہ کرتا ہے تو یہ کہیں گے کہ شیطان اُس کے سرپر سوار ہے اُس کے سر چڑھا ہے اگر کوئی آدمی بُرا ہو گا تو کہیں گے کہ وہ تو شیطان ہیں اگر کسی سے کوئی برائی وجود میں آتی ہے تو کہتے ہیں کہ شیطان موجود ہے اس نے کروائی ہے یہ برائی کروا دی اگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس برائی کا ذمہ دار آدمی ہے تو کہتے ہیں کہ آدمی کا شیطان آدمی ہے یعنی برائی کی ہر نسبت شیطان کی طرف جاتی ہے کہ انسان کی یہ ایک فطرت اور مزاج ہے کہ وہ ذمہ دار خود ہوتا ہے لیکن اُسے تسلیم نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ کسی دوسرے کے سر ڈالتا ہے یہ ہمارا سماجی رو یہ آئے دن ہمارے سامنے آتا رہتا ہے اتنی فلسفیانہ طور پر شیطان کے وجود پر جنم دیا اور شیطان سے نسبت کے ساتھ بہت سی بُرائیوں کو پیش کیا جس کی نسبت اُسے اپنے سے کرنی چاہیے تھی وہ دوسروں سے کر دی مذہبوں نے بھی اپنے طور پر اس تصور کو ایسی سوچ اور Approachمیں داخل کر لیا۔شین قاف اُردُو زبان اپنے لب و لہجہ اور مختلف لفظوں کے تلفظ کے اعتبار سے ایک ایسی زبان ہے جس کو مختلف لوگ بولتے اور الگ الگ بولیوں والے اپنی سماجی ضرورت کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس میں ایسے حروف موجود ہیں جس کا تلفظ ہمارے عام لوگ کر ہی نہیں سکتے ہیں ۔ جیسے ث، ذ، ص، ض، ظ، ع، غ اور ف۔ اس لئے کہ یہ حُروف ہماری دیسی زبانوں میں موجود ہی نہیں اس پر بھی" شین" کو چھوٹے"س" سے بدل دینا اور"قاف" کو چھوٹے"کاف"سے اور مُنشی"کو"منسی" کہنا اور قلم کو"کلم" کہنا بہت بُرا لگتا ہے اسی لئے جب کوئی شخص بولتے وقت شین قاف کی دُرستگی کا خیال رکھتا ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا"شین قاف" درست ہے یہ زبان لفظیات اور تلفظ سے متعلق ہمارا ایک تہذیبی معیار ہے مگر اُردُو سوسائٹی کا ہر زبان والے کا نہیں کہ وہ"شین قاف"کی درستگی پر زور دیتے ہیں اور اسی لئے شین قاف دُرست ہونا ایک محاورہ ہے۔