اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ساکھ جاتی رہنا یا ساکھ بننا ساکھ ہماری زبان کے اہم سماجی الفاظ میں سے ہے اور اِس کے معنی ہیں اعتبار، اعتبار سیاسی بھی ہوتا ہے اور سماجی بھی علمی بھی ہوتا اور کاروباری بھی ہم تحریروں سے زیادہ زبان پر اعتبار کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اُس پر اعتماد کرتے ہیں اسی کو" ساکھ بننا"کہتے ہیں ساکھ باقی رہنا کہتے ہیں " اور اگر یہ اعتبار ختم ہو جاتا ہے چاہے ایک فرد پر سے ختم ہو چاہے ایک جماعت پر سے یا دکان اور ادارے سے بہرحال ساکھ باقی رہنا بڑی بات ہے اور سماجی نقطہ نظر سے اس محاورے کو سماجی رشتوں کے ساتھ جوڑ کر اگر دیکھا جائے تو اُس کے معنی غیر معمولی طور پر اہم ہو جاتے ہیں ۔ ساکھ جاتی رہنے کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔سانپ سُونگھ جانا، سانپ کا کاٹا رسی سے ڈرتا ہے، چھاچھ کو پھُونک پھُونک کر پیتا ہے، سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے، سانپ کی طرح پھن مار کر رہ جانا، سانپ نکل گیا لکیر کو پیٹا کرو۔ سانپ جس کی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں ہماری زندگی کا کئی اعتبار سے ایک اہم حوالہ ہے۔ وہ جانداروں میں سب سے زیادہ زہریلا ہوتا ہے اور اُس کے کاٹے کا مشکل ہی سے علاج ہوتا ہے۔ سانپ" گُل کنڈے" کھا کر اپنے آپ کو سمیٹ لیتا ہے اور دُم کو اپنے منہ میں لے لیتا ہے یہ گویا ابتدا کو انتہا سے ملانا ہے وہ بغیر پیروں کے دوڑ سکتا ہے یہ ایک عجیب و غریب صفت ہے وہ اپنے سہارے پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی کچھ خو بیاں ہیں جو سانپ کے کردار میں شامل ہیں مثلاً"کالا سانپ"، "بین پر رقص کرتا" ہے اور اس کی آواز پر کھنچا چلا آتا ہے سانپ کی آنکھوں میں غیر معمولی کشش ہوتی ہے۔ سانپ سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جو سماج کی روش و کشش کو ظاہر کرتے ہیں اور اس آئینہ میں ہم انسان کے کردار کو سمجھ سکتے ہیں کہ کس وقت اُس کا عمل اور رد عمل کیا ہوتا ہے اور اس کا ہمارے فکر و خیال سے سماجی طور پر کیا رشتہ بنتا ہے۔ مثلاً سانپ سونگھ جانا، مثلاً جب آدمی کسی بات کو سُن کر چُپ ہو جاتا ہے اور لاجواب ہونے کے عالم میں پہنچ جاتا ہے تو اسے سانپ