اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہے یعنی ہزار درود و سلام اسی لئے جب کسی کی تہہ دل سے تحسین کی جاتی ہے اور اُسے بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ تو اُسے صلِ اللہ کہا جاتا ہے۔ غالب کا شعر ہے۔ دیکھئے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگاس کی ہر بات پہ ہم صلِّ اللہ کہتے ہیں نام خدا کہنے کے معنی بھی یہی ہیں اور ایک خاص کلچر کے اظہار سے تعلق رکھتے ہیں ۔صلُّواتیں سُنانا صلوات سُنانا برا بھلا کہنے کے معنی میں آتا ہے جب کہ" صلات" کے معنی ہیں نماز اور صلوٰۃ کے معنی ہیں درود لیکن زبان کیا کیا رنگ اختیار کرتی ہے اُس کا اندازہ اِس سے ہوتا ہے کہ صلوٰۃ جو اچھے سے اچھے معنی میں آتا ہے اُس کو بُرے معنی میں اور بے تکلف استعمال کیا جاتا ہے۔ ا س سے ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں کہ کلچر جس میں مذہبی روایت بھی شامل ہے ہماری زبان کو متاثر کرتا ہے اور اِس کا ادبی علمی اور عوامی کردار اس سے متعین ہوتا ہے لیکن زمانہ اور زندگی ذہن اور زبان اسے جگہ جگہ اس طرح بھی متاثر کرتے ہیں کہ ا ُس کا رخ بدل جاتا ہے اور زبان کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔صندل کے چھاپے منہ پر لگنا، صندل کی سی تختی، صندل گھُنا صندل دراصل"چندن" ہے جو ایک خوشبودار لکڑی ہوتی ہے اس کے درخت جنوبی ہندوستان میں پیدا ہوتے ہیں اور ہندو کلچر سے اُن کا خاص تعلق ہے جنوبی ہندوستان کے لوگ پنڈت اپنے ماتھوں پر قشقہ لگاتے ہیں یہ صندل گھِس کر لگایا جاتا ہے مہا کوی کالی داس کے زمانے میں عورتیں اپنے بدن کی سجاوٹ کے لئے اور اُس کو خوشبودار بنانے کی غرض سے اُس پر چندن لگاتی تھیں ۔ چندن کی لکڑیوں سے بعض خوبصورت آرٹیکل تیار کئے جاتے تھے ا بٹن میں بھی چندن شامل کیا جاتا تھا اس طرح ہمارے کلچر سے"چندن"کا صدیوں سے ایک گہرا رشتہ رہا ہے۔