اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
دوسرا محاورہ دال گلنا ایک اور صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو غربت کی صورت حال ہے اب سے کچھ زمانہ پہلے تک غریب گھروں میں ایندھن کی بڑی دشواری ہوتی تھی۔ آگ بھی ایک بڑی نعمت تھی اور گھروں سے آگ مانگی جاتی تھی۔ اور کرچھی لے کر ایک گھر سے دوسرے گھر جایا جاتا تھا کہ ایک دو انگارے مل جائیں اور اکثر ایندھن کی کمی کی وجہ سے یہ ہوتا تھا کہ دال پوری طرح پکتی بھی نہیں تھی اور کچی رہ جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے دال گلنا ایک محاورہ بن گیا اور جہاں کسی کی بات نہیں بنتی تھی وہاں بھی یہ محاورہ استعمال کیا جاتا تھا۔دام میں آنا، دام میں لانا، دامن پکڑنا، دامن پھیلانا، دامن جھاڑنا، دامن جھٹکنا، دامن سے لگنا دام میں آنا یا لانا کسی کے جال میں پھنسنا فریب دہی کا شکار ہونا۔ یہ ہمارے سماج کا ایک رو یہ ہے کہ وہ دھوکا دیکر دوسروں سے کام نکالتے ہیں اور ان کو مصیبت میں پھانس دیتے ہیں اور آدمی اپنی کسی ضرورت مجبوری یا سادہ لوحی کے زیر اثر دوسرے پر اعتبار کرلیتا ہے۔ اور پھر پریشانیوں میں پھنس جاتا ہے۔ دام میں آنا یا دام میں لانا اسی فریب دہی کے عمل کو کہتے ہیں جس کا مظاہرہ ہماری معاشرتی زندگی میں صبح و شام ہوتا رہتا ہے دامن پکڑنا یا پھیلانا دو الگ الگ محاورے ہیں دامن ہمارے لباس کا ایک بہت اہم حصہ ہوتا ہے جس سے ہم بہت سا کام لیتے ہیں چھوٹے بچے کو دامن سے ڈھکتے ہیں عورتیں پردہ میں منہ چھپانے کے لئے اپنے دامن سے نقاب کا کام لیتی ہیں ہم دوسرے کا دامن پکڑ کر اس کی دیکھ ریکھ یا نگرانی اور رہنمائی میں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں دامن جھاڑنا یا جھٹکنا، ذمہ داری سے دامن بچانے کا عمل ہے۔ جو اکثر ہمارے تہذیبی رویوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دامن سے لگ کر بیٹھنا کسی سے قریب تر آتا رہنا اور پناہ لینے کی کوشش کرنا ہے دامن چاک کرنا انتہائی بے صبری بے سکون اور جوش کا اظہار کرنا ہے جس کو جنون کی حالت سے تعبیر کیا جاتا ہے اُردو کا ایک معروف شعر ہے۔ اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہےدامن کے چاک" اور گریباں کے چاک میں