اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
سب تو ہماری تقدیر کی بُرائی ہے ہمارا کوئی قصور نہیں اور اپنے رشتہ داروں پر اپنا حق تصور کرتے تھے پھر شکوہ شکایت کرتے تھے۔بہشت کا جانور، بہشت کا میوہ، بہشت کی قمری، بہشت کی ہوا بہشت مسلمانوں میں اور اس سے پیشتر عیسائیوں اور یہودیوں میں موت کے بعد کی زندگی کا ایک آئیڈیل ہے کہ وہاں راحتیں ہیں اس میں محل ہیں بہتی ہوئی نہریں پھل دار درخت ہیں اور چہکتے ہوئے پرندے ہیں ہمارے ہاں سکون و راحت آرام کا یہی تصور بھی ہے جو صحرا نشیں قوموں کا ہوتا ہے اس سے بہت سے محاورے ہمارے ہاں جیسے بہشت کی قمری حُور جنت کوثر و تسنیم، شجر طوبہ، شجرِ ممنوعہ، آدم و حوا کا بہشت میں قیام یہ سب اسی تصور کا نتیجہ ہے جس کا اثر مسلمان تہذیب پر بہت گہرا ہے۔ اس کا اثر عیسائی تہذیب پر بھی ہے مگر اتنا نہیں فردوس گم گشتہ کی بات وہاں پر زبانوں پر آتی ہے انگریزی کے مشہور شاعر ملٹن کی نظم پیراڈائس لوسٹ اور Paradise Regained پیرا ڈائس ریگینڈ نظمیں اسی کی طرف اشارہ کرنے والی شعر ی تخلیقات ہیں ۔بیٹی کا باپ ہمارے یہاں بیٹی ہونے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا اس کی بہت سی وجوہات ہیں اُن میں ایک بڑی وجہ بیٹی کے ساتھ اس کی سسرال والوں کا رو یہ ہے جو ایک بیٹی والے باپ کے لئے بے حد تکلیف کی بات ہوتی ہے۔ ہمارا سماج کمزور کو دباتا ہے چاہے اُس کی کمزوری اخلاقی ہو یا رشتوں کی نزاکت کے باعث ہو یا مالی اعتبار سے ہو۔ یا بے سہارا ہونے کے لحاظ سے یہاں تک کہ اگر اس کے گھر میں بیٹی ہے تو یہ بھی کمزوری ہے۔ اور اس کو بھی موقع بہ موقع داماد اس کے گھر والے برابر Exploitکرتے رہیں گے ناجائز دباؤ ڈالتے رہیں گے۔بے چراغ کرنا، بے چراغ ہونا