اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
پکڑنا محنت مزدوری کرنے والوں کا محاورہ ہے۔ جو لوگ باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں ان کا محاورہ یہ نہیں ہو سکتا روپیہ کے مقابلہ میں (دھیلی) اور"دھیلی" میں "پاولا" آٹھ آنے چار آنے کو کہتے ہیں یہ محاورہ اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب ایک آدمی کی مزدوری آٹھ آنے روز ہوتی تھی اور وہ بھی کاریگر کی عام مزدور کو چار آنے ملتے تھے اس طرح سے محاورات میں نہ صرف یہ ہے کہ طبقاتی ذہن کی پرچھائیاں ملتی ہیں بلکہ ایک وقت میں ایک خاص طبقہ کی جو آمدنی ہوتی تھی اس کی محنت کا جو معاوضہ ملتا تھا محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا تھا۔ آج بھی ہمارے یہاں روٹی، روزی، روزگار سے لگا ہوا کہنے والے موجود ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس زبان اس فن یا اس کام کا تعلق روٹی روزی سے جوڑ دیا جائے اِس سے ان کی مُراد روپیہ پیسہ یا آمدنی کے حصول کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ اِس کا تعلق اس وقت کی مزدوری سے ہے جب محنت کا معاوضہ پیسوں میں نہیں روٹیوں میں ادا کیا جاتا تھا اور روز کی روٹی کہا جاتا تھا روزی دراصل روزینے کو کہتے تھے یعنی روزانہ جو کچھ ملازم یا مزدور کو ادا کیا جاتا تھا وہ اس کی روزی ہوتی تھی چار آنے روز دو آنے روز ایسا بھی ہوتا تھا کہ آٹا پیسنے والی کو پیسوں کے بجائے مزدوری میں آٹا ہی دیا جاتا تھا اور بازار سے جب چیز منگائی جاتی تھی تو روٹی بنوا لے، جو، باجرا، چنے اور گیہوں کچھ بھی دوکان پر بھیج دیا جاتا تھا اور اُس کے بدلہ میں روزمرّہ کے استعمال کی چیز آ جاتی تھی۔ "فقیر مٹھی دو مٹھی آٹا مانگتا تھا" جو ایک محاورہ ہے اور ایسا ہوتا تھا کہ صبح کے وقت جو عورتیں عام طور پر گھروں میں چکی پیستی تھیں اپنے گھر کے آٹے میں سے ایک مٹھی آٹا اُسے دے دیتی تھیں مٹھی بھر آٹا، مٹھی بھر اناج، یا مٹھی بھر چنے، یہاں تک کہ مٹھی بھر دانے خیرات یا مزدور ی کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ ہمارا معاشرہ بدل گیا لیکن اس دور یا کسی بھی دور یا کسی بھی، معاشرے سے تعلق رکھنے والے محاورے ہم عہد یا معاصر سچائیوں کی نمائندگی اب بھی کرتے ہیں ۔بازار کے بھاؤ پیٹنا