اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہمارے ہاں "آم" ایک مشہور پھل ہے قدیم زمانہ سے سنسکرت اور ہندی لٹریچر میں اس کا ذکر آتا رہتا ہے اور تعریفوں کے ساتھ آتا ہے ہمارے ہاں آموں کے باغ کے علاوہ ایک سطح پر آموں کے جنگل ہوتے تھے جب آموں کے باغ لگائے جانے لگے تو وہ آم ملنے لگے جو ڈال پر پک کر تیار ہو اور جس کو ڈال سے توڑ کر کھایا جا سکے اس لئے کہ تازگی اسی پھل میں ہوتی ہے ایسے پھل بھی ہوتے ہیں جنہیں پال میں دبا کر یا کوئی دوا چھڑک کر پکایا جائے۔ آم تو عام طور سے پال میں دبائے جاتے ہیں اور پسند کئے جاتے ہیں ایک ڈال کے پکے ہوئے آم کی یا کسی بھی پھل کی لذت اور لطف کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے ڈال کا پکا کہتے ہیں ویسے آم مٹکے کا بھی ہوتا ہے اور اس کو محاورے میں ٹپکے کا آم بھی کہتے ہیں کہ جب وہ پکتا ہے تو شاخ کو چھوڑ کر زمین پر گر جاتا ہے۔ اُس کے مقابلہ میں وہ پکا پھل جسے ڈال سے توڑا جاتا ہے وہ زیادہ قابلِ تعریف اور خوش مزہ سمجھا جاتا ہے اسی لئے ڈال کا ٹوٹا کہتے ہیں اور اسی نسبت سے آدمیوں کے کردار اور اُن کی قدر و منزلت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور پھلوں کا اِطلاق آدمیوں کی شخصیتوں پرکیا جاتا ہے۔ڈنکے کی چوٹ کہنا "ڈنکا"ہمارے دیہاتی قصباتی اور شہری سماج میں ایک خاص معنی رکھتا ہے ڈنکے کی چوٹ کہنا ڈنکا بجنا جیسے محاورے ہمارے یہاں ایک خاص معنی رکھتے ہیں ہم کسی بات کا اعلان کروانے کے لئے مُنادی کروا دیتے تھے تاکہ سب کو خبر ہو جائے اس کو"ڈھنڈھورا" بھی کہتے تھے ڈنکا پیٹنا بھی اسی سے نکلا ہے اور ڈنکا پیٹنا بھی دونوں شہرت دینے اور شہرت پانے کا عمل ہے مگر بُرائی کے معنی ہیں ۔ جس بات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اُس کی شہرت ہوتی ہے اسے ڈنکا بجنا کہتے ہیں مگر وہ صرف برے معنی میں نہیں آتا۔ اُن کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے۔دہلی میں ملکہ زینت محل جب محل سے باہر آتی تھیں تو اُن کے ساتھ ڈھول بجتا ہوتا تھا یا دوسرے باجے تاشے بجتے تھے اِسی لئے اُن کو ڈنکا بیگم کہا جاتا تھا۔ آج شہرت پانے اور شہرت دینے کے ذریعہ میڈیا کی وجہ سے دوسرے ہو گئے تواب ڈنکے کا لفظ محاورہ میں رہ گیا مگر معاشرہ اس سے دُور ہوتا گیا"ڈھول پیٹنا" بھی اسی مفہوم کی طرف اِشارہ کرتا ہے اور ڈھول بجنا بھی یہ ہمارے تمدن کی ایسی یادگاروں میں سے ہے جن کو ہم بھولتے جا رہے ہیں مگر ہمارے محاوروں کے ذریعہ گویا یہ حالات اور یہ ماحول Preserve ہو گیا ہے۔