اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
مغربی یوپی میں ایسے بھربتون کہتے ہیں دوسرے محاورے جواس سلسلے کے ہیں وہ وہاں رائج ہیں دہلی ہی میں رائج ہیں ۔ بھرا پُرا گھرکے لئے بھی آتا ہے جس میں چیزیں بھی ہوں اور پیسے بھی اس لئے کہ ہمارے یہاں اتنی بھی ہوں اور پیسے بھی اس لئے کہ ہمارے یہاں اتنی غربت رہی ہے کہ بعض اوقات گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہوتا تھا تو عورتیں کہتی تھیں کہ ہم نے روٹی پر روٹی رکھ کے کھائی یعنی ہم اتنے غریب نہیں ہیں کہ ہمارے یہاں دو روٹیاں بھی نصیب نہ ہوں اب ایسے خالی گھروں کے مقابلہ میں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا بھرا پرا گھر مال و دولت کے اعتبار سے بڑا گھر کہلاتا تھا اور جب کبھی لڑکی کو یا کسی عزیز کو بہت کچھ دیکر رخصت کیا جاتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ ابھی تو پھر تبول یا بھربتوں کے بھیجا تھا۔بھرم کھُل جانا، بَھرم باقی رہنا ہمارے ہاں بہت باتیں اصل حقیقت نہیں ہوتیں بلکہ اُن کو ظاہر اِس طرح کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہوں لیکن اِس میں واقعتاً کوئی بنیاد نہیں ہوتی تو جلدی ہی وہ بات کھُل جاتی ہے اور بھرم باقی نہیں رہتا اس کو دہلی میں ایک اور محاورے سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ پول پیٹی کھُل گئی اور آدمی اپنے بھرم کو باقی رکھ سکے کہ سماج کے لئے وہ بڑی بات ہوتی ہے۔بھرے کو بھرتا ہے یہ محاورہ بھی ہمارے سماج کی سوچ ہے اور ہوت نہ ہوت کے نتیجے میں پیدا ہوئی کہ ضرورت مند آدمی یہ سمجھتا ہے۔ کہ میں متحقق ہوں مجھے ملنا چاہیے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور ملتا اسے ہے کہ جسے ضرورت نہیں ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ بھرے کو بھرا جاتا ہے ہم اکثر رشتہ داروں کے لبوں پر شکایت دیکھتے ہیں کہ وہاں تو بھرے کو بھرا جاتا ہے۔ یہ سماجی شکایت ہے یہاں تک کہ یہ شکایت خدا سے بھی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں نکمّہ پن بھی زیادہ تھا اور نہ انصافی بھی اسی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے پاس ہوتا تھا اور کچھ لوگوں کے پاس بالکل نہیں ہوتا تھا۔ بعض حالتوں میں وہ اِس نہ ہوت کے خود بھی ذمہ دار ہوتے تھے۔ لیکن سمجھتے یہ تھے کہ یہ