اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہے جس سے دوسرا ادھ مرا ہو جائے میر تقی میر کا مشہور شعر ہے اور بازاری زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہاں پلیتھن نکل گیا واں غیراپنی مُکیّ لگائے جاتا ہے۔پھوٹ پڑنا یا ہونا، پھُوٹ ڈالنا پھُوٹ کے معنی ہیں ٹوٹ پھُوٹ پیدا کرنا اختلاف کو جنم دینا ہندوستان میں ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم ذرا سی بات پر خفا ہو جاتے ہیں اور اپنے تعلقات میں تلخی شکر رنجی یا اختلافات کی صورت پیدا کر لیتے ہیں اور ہمارے آپسی میل جول یا اتحاد میں فرق آ جاتا ہے اُسی کو پھُوٹ پڑنا کہتے ہیں ۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو سکھا پڑھا کر غلط سلط مشورہ دے اختلافات پیدا کرتے ہیں اور دلوں میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں ۔ جس سے تعلقات میں اُستواری یا ہمواری باقی نہیں رہتی ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔پھُول کھیلنا، پھُول کی جگہ پنکھڑی، پھُول نہیں پنکھڑی ہی سہی، پھُول کی چھڑی بھی نہیں لگائی۔ پھُولوں کا گہنا۔ پھُولوں کی چھڑی، پھُولوں کی سیج، پھولوں میں ملنا، پھول پان پھول ہماری دنیا کا ایک بہت ہی خوبصورت قدرتی تحفہ ہے یہ ہماری سماجی رسموں میں بھی شریک ہے خوشی کے موقع پر خاص طور سے پھولوں کا استعمال ہوتا ہے۔ پھُولوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے ہار پہنائے جاتے ہیں پگڑی میں لگائے جاتے ہیں ۔ بعض مغل بادشاہ اپنے ہاتھ میں گلاب کا پھول رکھتے تھے اکبر جہانگیر اور شاہ جہاں کی ایسی تصویریں ملتی ہیں جن میں گلاب کا پھول ان کے ہاتھ میں ہے۔ پھول دواؤں میں بھی کام آتے ہیں ۔ اور فنونِ لطیفہ میں بھی اور ہماری سماجی زندگی سے ان کا ایک واسطہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی شاعری کے علاوہ اپنے محاوروں میں پھول کو شامل رکھتے ہیں جس کا اندازہ مندرجہ بالا محاوروں سے بھی ہو سکتا ہے پھول سونگھنا یا پھول سونگھ کر جینا انتہائی کم خوراک ہونا ہے۔ پھول چننا یا موتی چننا خوشی کے موقع پر ہوتا ہے۔