اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
صاف اُڑانا، صاف انکار کرنا، صاف جواب دینا، صاف نکل جانا ہماری سماجی عادتوں کمزوریوں یا برائیوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم جس بات کو سننا یا جاننا نہیں چاہتے اُس کی اُن دیکھی کرتے ہیں جیسے ہم نے سنا ہی نہیں یا ہمارے علم میں ہے۔ نہیں اور یہ سب کچھ جان کر ہوتا ہے ہم دانستہ انجان بنتے ہیں اِس سے ہم اپنے سماجی رویوں کے مطالعہ میں مدد لے سکتے ہیں ۔ صاف نکل جانا بھی اسی مفہوم سے قریب تر اِس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے یعنی ذمہ داریوں سے بچ نکلنا اور یہی ہمارا معاشرتی مزاج بھی ہے۔صبح خیز، صبح خیزے، صبح خیز ہونا صبح کو اٹھنے والا صبح خیز کہلاتا ہے یہ عبادت کی غر ض سے ہوتا ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صبح کی عبادت میں زیادہ لطف اور رُوحانی کیف ہوتا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو لفظی ترکیب اتنی نیکیوں کی طرف اِشارہ کر رہی تھی اسی سے صبح کے ابتدائی حصّے میں چوری چکاری کرنے والے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو قافلوں کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ قافلے عرب میں رات کے وقت سفر کرتے تھے اور صبح کے قریب یہ سو جاتے تھے اسی وقت اس طرح کے چوری چکاری کرنے والے مصروفِ عمل ہوتے تھے اسے ہمارے ادیبوں نے بھی استعمال کیا ہے۔ فسانہ عجائب میں ایک سے زیادہ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں صبح خیز دراصل"صبح خیزے" ہی ہے اور اپنے خاص مفہوم کے ساتھ ہے۔صبح شام کرنا اُردُو کے ایسے محاورات ہیں جو بہت سی پریشانیوں ذہنی تکلیفوں اور کرب و اضطراب کے عالم کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اُن میں " صبح و شام"ہونا بھی ہے یہ ایسے مریض کے لئے کہا جاتا ہے۔ جس کی زندگی توقعات ختم ہو چکی ہوں