اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہم چہرے کو انسان کے حُسن خوبصورتی اور بدصورتی کے سلسلے میں بڑی اہمیت دیتے ہیں کبھی پھول کہتے ہیں کبھی چاند کہتے ہیں کبھی ٹکیاں سا منہ قرار دیتے ہیں کبھی آئینہ رخ کہتے ہیں ایسی لڑکیاں یا عورتیں جن کے چہرے بہت گول ہوتے اور جن کے نقش و نگار نسبتاً بڑے چہرے مقابلہ میں ہلکے ہوتے ہیں اُن کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ طباق سے منہ والی لڑکی یا عورت ہیں ۔ جب لڑکیوں کو بہت تھوڑی عمر میں پردہ کروا دیا جاتا تھا اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ طباق سا منہ ہو گیا اب تک اس کو پردہ کیوں نہیں کروایا گیا یہ بھی سماجی رو یہ ہے جو قصبوں چھوٹے شہروں میں اب تک دیکھنے کو ملتا ہے اور ہماری معاشرتی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔طباقی کتّا ہمارے ہاں ہندوؤں میں جس تھالی میں کھایا جاتا ہے اُس کو کتّے کے چاٹنے کے لئے رکھ دیا جا تا ہے اب تو ایسا نہیں ہوتا لیکن اس کا ایک عام دستور ضرور رہا ہے جو کتا یہ کام کرتا تھا اور اُسے طباقو کتا کہتے تھے جو گویا سماج کی طرف سے ایسے کرداروں کا ایک طنز کا درجہ رکھتا تھا ایسی عورتیں بھی" طباقو" کہلاتی تھیں جن کو اِدھر اُدھر کھانے پینے کا لالچ ہوتا تھا۔طبقہ اُلٹ جانا ہماری مذہبی فکر ہویا فلسفہ اور سائنس سے متعلق ہو دونوں میں آسمان و زمین کے طبقات داخل ہیں اور اُن کا ذکر موقع بہ موقع آتا رہتا ہے خود قرآن نے آسمان کو سات طبقوں سے وابستہ کیا ہے۔ زمین کے بھی طبقے ہیں اور زمین و آسمان کے طبقے ملا کر چودہ طبق کہا جاتا اور ہمارے ہاں محاورہ بھی ہے چودہ طبق روشن ہو گئے سماجی طور پر بھی اور معاشی طور پر بھی ہم طبقات کی تقسیم کے قائل ہیں مثلاً پڑھے لکھے لوگوں کا طبقہ کاریگروں کا طبقہ جس میں مزدور اور کم درجہ کے دستکار سبھی شریک ہیں ۔ امیروں کا طبقہ سیاست پسندوں کا طبقہ ہم نے اہلِ شعر و ادب اور اصحابِ فلسفہ و تصوف کو بھی طبقات میں تقسیم کیا ہے اور طبقاۃ الصوفیہ"طبقاۃ الشعراء""طبقاۃ الملکہ" اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ طبقہ اور طبقات ہماری معاشرتی زندگی