اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
بے وقوف بھی خیال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہندو مایتھولوجی میں وہ لکشمی کی سواری بھی ہے اسی لئے جب کسی کو ہم بیوقوف سمجھتے ہیں تو اسے الو کہتے ہیں اور اسی سے" الو" بنانے کا محاورہ بھی نکلا ہے جو آدمی بہت بیوقوف سمجھا جاتا ہے وہ کاٹھ کا" الو" کہلاتا ہے یعنی اُلو بھی وہ جو لکڑی سے گھڑا گیا ہو تراشا گیا ہو کسی زندہ شے کو لکڑی یا کاٹھ سے نسبت دینا اسے انتہائی گیا گزرا قرار دینا ہے جیسے کاٹھ کا گھوڑا کہ بس وہ ہوتا ہے مگر دراصل نہیں ہوتا اس کے مقابلہ میں کل کا گھوڑا انتہائی چُست و چالاک ہوتا ہے اس معنی میں سماج کا عقل ہوش مندی اور بیوقوفی کے معاملہ میں کیا ردِ عمل ہو گا کٹھ پتلی لکڑی کی گڑیا ہوتی جسے تماشہ کے طور پر طرح طرح سے ناچتے اور حرکتیں کرتے ہوئے دکھلا یا جاتا ہے اسی لئے کٹھ پتلی کا ناچ بھی کہتے ہیں اور رو یہ رہتا ہے اس کو مذکورہ محاوروں سے سمجھا جاتا ہے۔کاٹے نہیں کٹتا مشکل وقت گزارنا بہت کٹھن ہوتا ہے اس میں جدائی میں گزاری جانے والی ساعتیں اور گھڑیاں زنجیر کے حلقہ بن جاتے ہیں جو کاٹے نہیں کٹتے ایک گیت ہے۔ دکھ کے دن کاٹے نہیں کٹتے کاٹنا ایک محنت طلب اور تکلیف دہ صورت ہوتی ہے اس میں لکڑیاں کاٹنا بھی ہے لوہا کاٹنا پتھر کاٹنا بھی ہے اور دکھ کے دن گزارنا بھی یہ محاورے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور احساس کی اس شدت کو ظاہر کرتے ہیں جو دکھوں کو سہنے اور جُدائی کے دن رات گزارنے میں آدمی محسوس کرتا ہے۔کاجل کی کوٹھری کاجل آنکھوں کے لئے وجہ زینت ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں بظاہر اچھی اور در حقیقت بُرے نتائج کی طرف لانے والی ہوتی ہیں ان کو محاورے کے طور پر کاجل کی کوٹھری سے تشبیہہ دیتے ہیں ممکن ہے آنکھوں میں زیادہ کاجل لگانے کو بھی مذاق کے طور پر کاجل کی کوٹھری بنا دینا کہتے ہیں محاوروں میں جو شاعرانہ