اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
جہاں مسلمانوں کے عام عقیدہ کے مطابق انسان کا اعمال نامہ اس کے ساتھ ہو گا نیکی بھی اور بدی بھی۔کوئی نہیں پوچھتا کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں دانت انسان کے چہرہ مہرہ میں خاص کردار ادا کرتے ہیں اور اُن سے بہت سے محاورات وابستہ ہیں لیکن یہ محاورہ ایک خاص طرح کا سماجی محاورہ ہے کہ ہر آدمی ایک دوسرے سے بے تعلق ہے اور کوئی کسی کے ذاتی معاملہ یا مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ یہ پوچھے کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں بہت سے مسائل غیر ضروری بھی ہوتے ہیں انہیں کوئی دوسرا کیوں چھیڑے اور غیر ضروری طور پر دوسروں کے معاملات میں دخل دے۔کھڑے گھاٹ دھُلوانا دھوبیوں کا محاورہ ہے اور ایسے طبقہ کے لئے ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرے کپڑے ابھی دھو دو مجھے کہیں جانا ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے پاس اور کپڑے نہیں ہیں نئے کپڑوں کا تو سوال ہی نہیں اس لئے کہ دھوبی کے گھرکے کپڑے بھی غنیمت ہوتے ہیں دھُلے ہوئے اور انہی کے لئے درمیانی طبقہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دھوبی کے گھرکے ہیں اِس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری معاشرتی زندگی کس طرح ہمارے محاوروں میں جھلکتی ہے۔کھوٹا پیسہ یا کھوٹا بیٹا وقت پر کام آتا ہے یہ محاورہ ہماری سماجی فکر کی بہترین نمائندگی کرتا ہے پیسہ ہونا یوں بھی مشکل ہوتا ہے اور پہلے زمانہ میں تو پیسہ کا میسر آنا بڑی بات تھی اِسی طرح بیٹا ہونا چاہے وہ نالائق ہی کیوں نہ ہو سکون کا باعث ہوتا تھا اور آدمی کا جی چاہتا تھا کہ وہ اس کی بھی تعریف کرے اسی لئے یہ محاورہ رائج ہوا کہ یہ کھوٹا پیسہ اور کھوٹا بیٹا ہی وقت پر کام آتے ہیں ۔