اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
"جگر" چبانا اور خون پینے کا عمل بھی غصّہ ہی کا اظہار ہے اسی لئے ہمارے یہاں غصہ کو کم کرنے کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے ذرا غم کھا ٹھنڈا پانی پی غصّہ تھام یہ محاورہ گلزارِ نسیم میں غصّہ تھامنے سے متعلق شعر اس طرح آیا ہے۔ تھمتا نہیں غصہ تھا منے سےچل دُور ہو میرے سامنے سے اسی میں اس طرح کے محاورے شامل ہیں غصہ تھوک دو یا غصہ پی جاؤ اگر دیکھا جائے تو ان محاوروں میں جذبات کے لحاظ سے غصّہ کا آنا بھی شامل ہے۔ چرنجی لال نے غصہ میں بھُوت بن جانا محاورہ بھی دیا ہے مگر اس کا استعمال عام نہیں ہے ہاں سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ شدید غصّہ کی حالت میں آدمی آدمی نہیں رہتا بھوت بنا ہوا نظر آتا ہے۔غضب آنا یا ٹوٹنا، غضب توڑنا، غضب میں پڑنا، غضب ہونا غضب غیر معمولی غصّہ کو بھی کہتے ہیں اور غضب ناک ہونا بولتے ہیں اور جب کوئی بیحد پریشان کُن اور تباہ کرنے والی صورت پیش آتی ہے تو اس کو قہر نازل ہونا یا غضب آنا کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ دلی میں نادر شاہ درانی کیا آیا یہ کہئے کہ غضب آگیا ویسے بھی غضب کا استعمال اُردو زبان میں غیر معمولی صورت حال کے لئے بہت ہوتا ہے کیا غضب کا گانا تھا کیا غضب کی آواز پائی ہے یا کیا غضب کا حافظہ ہے۔ غضب توڑنا یا غضب ٹوٹنا یا غضب ڈھانا یہ بہت عام ہیں اقبال نے اپنے شعر میں غضب کیا محاورہ استعمال کیا ہے۔ تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میںغُلام کرنا یا غُلام بنانا