اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
گا وہ عام حالت میں صدیوں تک گلنے سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہے گی۔ ہماری سماجی زندگی میں شہد" تہذیبی" رویوں میں داخل ہے اس میں مہذب رو یہ آتے ہیں اور بعض ایسے رو یہ بھی جو لائق تحسین نہیں ہوتے مثلاً کسی آدمی کے پاس کوئی شہادت نامہ ہے مگر اس سے فائدہ کوئی نہیں ایسے موقع پر بطورِ طنز و مزاح یہ کہتے ہیں کہ اب اُسے شہد لگاؤ اور چاٹو یعنی اس تلخی کو برداشت کرو کہ تمہارے ساتھ یہ دھوکہ ہوا ہے انگلی کو شہد میں بھگو لینا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔شیخ چلی مسلمانوں کے اپنے معاشرے کا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں ایک خاص طرح کا سماجی کردار مُلَّا نصیر الدین کے نام سے بھی اسی طرح کا ایک کردار ترکوں میں موجود ہے اور وہیں سے یہ مسلمان کلچر میں آیا ہے اس طرح کا کردار بُوجھ بجھکڑ کی صورت میں بھی موجود ہے کہ وہ حد درجہ ذہین ہے اور بیوقوف ہے ہماری داستانوں میں بھی اس طرح کے کردار آ گئے ہیں ۔ "فسانہ آزاد" میں فوجی کا کردار اسی طرح کا کردار ہے" شیخ چلی" جس کا مثالی نمونہ ہے۔شیخی بگھارنا، شیخی کِرکری ہونا، شیخی مارنا، شیخی میں آنا "شیخ"عرب میں سردار قبیلہ کو کہتے تھے یا پھر بہت معزز آدمی کو ہندوستان میں شیخ کا تصور شعبہ کے سربراہ سے متعلق ہے جیسے شیخ الادب، شیخ الامنطق، شیخ الحدیث، شیخ الجامع، کسی کالج یا یونیورسٹی کے صدرِ اعلیٰ کو بھی کہتے ہیں علاوہ بریں شیخ الہند، شیخ السلام، اور شیخ العرب، بھی کہا جاتا ہے یہ بھی خطابات ہیں ۔ ہندوستان میں شیخ سید مغل اور پٹھان چار اونچی ذات ہیں جو سماجی زندگی میں بھی اپنے اثرات رکھتی ہیں اور ان سے کچھ سماجی رو یہ وابستہ ہو گئے ہیں مثلاً