اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
یہ محاورہ دہلی میں فقیر کے لئے استعمال ہوتا ہے چاہے اِسے عورت کے ساتھ وابستہ کیا جائے یا مرد کے لئے اللہ نور نام بھی ہوتا ہے لیکن جب اللہ کانور کہتے ہیں تو اس سے مراد نورانی صورت ہوتی ہے ڈاڑھی کو بھی اللہ کانور کہا جاتا ہے۔اللہ کے گھر سے پھرنا، شدید بیماری سے واپس آنا جس کا یہ مطلب بھی ہے کہ موت خدا سے قُربت کا ذریعہ ہے اِسی لئے یہ محاورہ بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔الٰہی مہر ہونا جس طرح سے کوئی مُہری دستاویز مصدِقہ ہوتی ہے اسی لئے جب یہ کہا جائے وہ الٰہی مہر ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رقم وہ بات وہ وعدہ نامہ ہر طرح مصدِقہ ہے۔ تصدیق شدہ ہے اور اُس سے انکار نہیں ہو سکتا۔اللہ کا جی (جیو۔ جان) ہونا جو آدمی بالکل سُوجھ بُوجھ سے بالکل محروم ہوتا ہے بس ایک معصوم جانور جیسا اُس کا ذہن اور اُسی کے مطابق اس کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کو اللہ کی جی کہتے ہیں یہاں اللہ کا جیو کہنا ایک خاص تہذیبی معنی بھی رکھتا ہے وہ یہ کہ اللہ تو ہر انسان کو معصوم اور بھولا بھالا پیدا کرتا ہے یہ تو آدمی کو اُس کا ماحول اور اُس کی اپنائی ہوئی زندگی کی قدریں ہوتی ہیں جو اسے مکاری پر آماد ہ کرتی ہیں اِس لئے کہ جانداروں یا جانوروں میں تجربہ تو ان کے ذہن کو بدلتا ہے ورنہ بیشتر وہ معصوم ہوتے ہیں اور اپنی فطرت پر قائم ہوتے ہیں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں ہر بات کو کسی نہ کسی پہلو سے خدائی ہی سے نسبت دی جاتی ہے۔اِلَّلذی نہ اُلَّلذِی، نہ اِدھر کا نہ اُدھر، الی اللذین ولا الی اللذین