اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
شرم سے پانی پانی ہونا ہمارے ہاں جن محاوروں کی خاص تہذیبی اہمیت ہے اُن میں اظہارِ ندامت کرنے سے متعلق محاورے بھی ہیں اِس سے معاشرے کے عمل و ردِ عمل کا پتہ چلتا ہے ایک عجیب بات یہ ہے اور اس سے سوسائٹی کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہماری زبان میں شکر یہ سے متعلق محاورے کیا ہوتے شکر یہ کا لفظ بھی قصبات اور دیہات کی سطح پر موجود نہیں ہے ہندی میں بیشک ابھاری ہونا کہتے ہیں مگر دیہات و قصبات کی سطح پراس لفظ کی پہنچ بھی نہیں ہے اس کے مقابلہ میں اظہارِ شرمندگی کے لئے ایک بہت پرکشش اور بامعنی محاورہ آتا ہے اور وہ ہے شرم سے پانی پانی ہونا۔شوشہ اُٹھانا، شوشہ نکالنا یہ تحریر و نگارش کی ایک اِصطلاح ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں حرف کی شکل کو ایک ایسی صورت دینا جو اِملا کے اعتبار سے زیادہ واضح اور زیادہ صحیح ہو اُردُو رسم الخط میں فنِّ کتابت کی بہت سی نزاکتوں کا خیال رکھا گیا ہے اس میں شوشہ لگانا اور شوشہ دینا بھی شامل ہے اس سے اُردُو میں جو محاورہ بنا ہے اس کی سماجی اہمیت بہت ہے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات میں اعتراض کرتے ہیں اور نئے پہلو نکالتے ہیں اسی کو شوشہ نکالنا بھی کہا جاتا ہے۔ شوشہ نکالنا بات چیت سے تعلق رکھتا ہے اور شوشہ لگانا تحریر سے مطلب اعتراض کرنا اور کمزوریاں دکھانا ہوتا ہے۔ تحریر یا تقریر کی اصطلاح یا تصحیح پیش نظر نہیں ہوتی جس سے ہمارے معاشرتی رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔شِکار ہونا، شِکار کرنا شِکار انسان کا قدیم پیشہ ہے اِسی کے سہارے اُس نے ہزارہا برس پہاڑوں اور جنگلوں میں گزارے ہیں وہ جانوروں کا شکار کرتا تھا اور انہی سے اپنا پیٹ پالتا تھا اُن کے پروں سے اپنے بدن کو سجاتا تھا اُن کی ہڈیوں سے اپنے لئے زیور اور ہتھیار تیار کرتا تھا اور اُن کی کھال پہنتا تھا۔ انسان کی قدیم تاریخ اُس کے شکار کی تاریخ ہے اور اُس کے تمدّن میں جانور طرح طرح سے شریک تھے اب سے کچھ دنوں پہلے تک بھی شکار کا شوق بہت تھا۔