اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
لیکن مناسب حد تک ہی برداشت کرنا چاہئیے نامناسب حد تک بات کو پہنچانا یوں بھی صحیح نہیں ہوتا۔ توازن برقرار رکھنا چاہئے۔ کبھی کبھی بات اتنی پھیلتی بگڑتی اور اُلجھتی ہے کہ بات کا سرا نہیں ملتا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اصل مسئلہ کیا تھا، اور کیوں تھا اور کیسے تھا، بات کا سِرا پکڑنے کی کوشش ہم اکثر کرتے بھی نہیں اِس سے بھی بات الجھتی ہے اور اس کا سَمٹانا یا معاملہ سے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ باہر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بہ حیثیت مجموعی سماج کو سمجھنا ماحول کا جائزہ لینا اور صورتِ حال کا تجزیہ کرنا ایک بہت ضروری امر ہے جس سے ہم خوبصورتی کے ساتھ عہدہ بَرا ہونا بڑی بات ہوتی ہے۔ معاملہ کے تقاضوں کا خیال کرنا مسئلے کے ضروری پہلوؤں پر نظر رکھنا بات کے بے تکے پن سے بچنا سچ یہ ہے کہ بہت سی سماجی برائیوں سے بچنا ہے اور بہت سی الجھنوں سے نجات پانے کی کوشش ہے۔بارہ باٹ کرنا یا ہونا بارہ باٹ کرنا تیتر بتر کرنے کو کہتے ہیں جس کے بعد جمع اور ی مشکل ہو جاتی ہے اور آدمی کچھ کر نہیں پاتا سارا کنبہ بارہ باٹ ہو گیا ہے۔بارہ بانی کا ہو جانا ہر طرح سے صحت مند ہو جانا یہ بھی دیہات میں اکثر بولا جاتا ہے صحت مندی کے لئے بھی اور کھیت کی اچھی پیداوار کے لئے بھی اب رفتہ رفتہ محاورات غائب ہو رہے ہیں یہ محاورات بھی دیہات اور قصبات تک محدود ہو گئے ہیں ۔ مثلاً دیہاتی یہ کہتے ہیں کہ ذرا سی محنت کر لو وقت پر پانی دو اور کھاد ڈالو تو تمہارے کھیت بارہ بانی کے ہو جائیں گے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ شہر کا معاشرہ جب"کھیت کیا ر" کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا تو اُس سے نسبت رکھنے والے محاورے بھی اس کی زبان میں داخل نہیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے بہت سے شہری محاورے جو پڑھے لکھے اور ملازمت پیشہ طبقہ میں رائج ہیں وہ ان لوگوں کی زبان میں شامل نہیں جو کھیتی باڑی اور محنت مزدوری سے تعلق رکھتے ہیں اب جیسے (دھیلی) پاولا کمانا یا