اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
مدار ہے۔ پیٹ کا تعلق تخلیق سے بھی ہے اور ہم" حمل" سے لیکر بچے کی پرورش تک بدن کی جن علامتوں کو سامنے رکھتے ہیں ان میں پیٹ بہت اہم ذہنی حوالوں کا درجہ رکھتا ہے پیٹ سے ہونا پیٹ رہنا جیسے محاورے شِکم ناگزیر طور پر شریک رہتا ہے اسی لئے کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ شِکم سیر ہو کر کھایا یا شِکم سیر ہوا۔ شِکم"پوری" کا مفہوم اس سے تھوڑا مختلف ہے یعنی صرف پیٹ بھرنا اچھی طرح یا بُری طرح اچھی چیزوں سے یا بُری چیزوں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت کھاتے ہیں اور خود غرضانہ انداز سے دوسروں سے چھین کریا ان کا حق مار کر کھاتے ہیں ایسے لوگ شکم پرور کہلاتے ہیں ۔ اور زندگی بھر شکم پروری کرتے رہتے ہیں اگر ہم اِن محاورات پر غور کریں اور اُن کے معنی اور معنویت کو اپنی سماجی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ معمولی محاورے ہمیں کس طرح سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں یا اُس کی دعوت دیتے ہیں ۔شگُون کرنا، شگون ہونا شگُون ہمارے ہندوستانی معاشرے کا ایک اہم سماجی رو یہ ہے ہم ہر بات سے شگُون لینے کے عادی ہیں "کو ا" بولا"بلی" سامنے آ گئی صبح صبح ہی کسی ایسے شخص کی شکل دیکھی جو ہمارے معاشرے میں منحوس سمجھا جاتا ہے اُردُو کا ایک شعر ہے جو شگون لینے کی روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس جگہ بیٹھے ہیں با دیدۂ غم اٹھّے ہیں آج کس شخص کا منہ دیکھ کے ہم اٹھّے ہیں اس طرح سے شگون لینا یا شگون ہونا خوشی غم کسی کام کرنے کے ارادے سے گہرا تعلق رکھتا ہے ہم استخارہ کرتے ہیں فال نکالتے ہیں یہاں تک کہ دیوانِ حافظ سے فَال نکالتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ایشیائی مزاج شگون لینے اور شگون دیکھنے سے کیا رشتہ رکھتا ہے۔ ہندوؤں میں شبھ گھڑی شادی کرنے سے پہلے دیکھی جاتی ہے مغل حکومت کے زمانہ میں بھی اس طرح کا رواج موجود تھا یہاں تک کہ جشنِ نو روز منانے کے سلسلے میں وہ نجومیوں سے پوچھتے تھے اور لباس کا رنگ طے کرتے تھے۔