اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کو انتہائی کم قیمت قرار دینا ہے مغربی یوپی میں کوڑی کوڑی کو"ڈ" سے لکھا جانا ہے دہل میں "ر" استعمال ہوتا ہے۔کولھو کا بیل، کولھو کاٹ کر موگری بنانا، کولھو کے بیل کی طرح پلِنا کولھوں کا بیل آنکھیں بند کئے ایک ہی دائرہ میں چکر لگاتا رہتا ہے اسی لئے جہاں سے چلتا ہے وہیں کھڑا ہوتا ہے یعنی اس کے سفر کی کوئی منزل نہیں ہوتی اسی لئے مولانا حالی نے ایک موقع پر کہا تھا یہ کولھو کے کچھ بیل سے کم نہیں ہے۔ جہاں سے چلے تھے وہیں کے وہیں ہیں ۔ کولھو کاٹ کا موگری بنانا یہ دہلی کا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں کسی بڑی چیز کو قربان کر کے چھوٹی چیز حاصل کرنا جو بہرحال بیوقوفی کی علامت ہے اور نفع نقصان کو نہ سمجھنا ہے۔ اسی لئے اسے ایک گہرا طنز خیال کیا جاتا ہے۔کولھو میں پلوا دینا بے حد شدید اور عبرت ناک سزا ہے پہلے زمانہ میں سزائیں بہت سخت تھیں مثلاً سولی دینے کی سزا آنکھیں نکلوانے کی سزا بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلانے کی سزا اسی طرح پہلے زمانہ میں زندہ انسانوں کو کولھوؤں میں ڈال دینے اور پھر اُن چیزوں کی طرح جو کولھو میں ڈال کر پلوائی جاتی تھیں انسان کے وجود کو ریزہ ریزہ کر دینے کی سزا یہ آج بھی محاورے کی صورت میں اپنے بے حد تکلیف دہ احساسات کے ساتھ زندہ ہے اور ہماری تاریخ کے بہت المناک واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہے اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ محاوروں میں کس طرح تاریخی حقائق کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیا ہے ایک چھوٹا جملہ محاورے کی شکل میں تاریخ کا مرقع ہوتا ہے۔