اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
عُمر کا حِساب اکثر ہمارے یہاں سماجیاتی فقروں میں لیا جاتا ہے یا اُس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جیسے ستّرا بہتّرا یا ساٹھا پاٹھا جیسا کہ میر حسن نے لکھا ہے۔ برس پندرہ یا کہ چودہ کا سِنجوانی کی راتیں مُرادوں کے دن یا محاورے کے طور پر کہتے ہیں انیس بیس کا فرق چھٹے چھماس میں بھی عدد شامل ہے چھٹی کے دُودھ میں بھی اور چلّا چھٹی میں بھی شامل شمار موجود ہیں ۔سِتم توڑنا، ستم ٹوٹنا سماج کے ظالمانہ رو یہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اسی لئے ستم کرنے کو ستم توڑنا کہا جاتا ہے اس سے سماج کے محسوسات کا پتہ چلتا ہے وہ کس طرح اعمال کو دیکھتا اور اپنے محاورے کے اعتبار سے اس پر تبصرہ کرتا ہے۔سِٹی گُم ہو جانا حیرت یا خوف کی وجہ سے آدمی کا گُم سُم رہ جانا بول نہ سکنا محاورہ میں سِٹی گُم ہونا کہا جاتا ہے۔ محاورہ زبان میں جو تبدیلیاں کرتا ہے اور زبان کے استعمال کے سلسلہ میں جو نئے پہلو محاورے کے باعث پیدا ہوتے ہیں وہ سماجی لسانیات کے سلسلہ میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور زبان کے سمجھنے کے معاملہ میں اس سے بڑی مدد ملتی ہے چُپ سادھنا اسی ذیل میں آتا ہے۔سخت و سُست کہنا ہمارا سماجی رو یہ گفتگو میں اکثر سامنے آتا ہے محبت کی زبان کچھ اور ہوتی ہے نفرت کی زبان کچھ اور اسی طرح طنز کی زبان اور تعریف کی زبان میں فرق ہوتا ہے۔ ناراضگی میں سخت و سُست کہا جاتا ہے اور خوشی میں اچھی اچھی باتیں کی جاتی ہیں اس سے لب و لہجہ بھی بدلتا ہے الفاظ میں بھی تبدیلی آتی ہے اور مغنیاتی سطح میں بھی اس پر غور نہیں کیا جاتا ورنہ سماج کے بہت سے ذہنی رو یہ زبان کے استعمال میں خود کو واضح کر دیتے ہیں ۔ سخت و سُست کہنا بھی اسی سلسلہ گفتگو کا ایک خاص انداز ہے جس میں بُرا بھلا کہا جاتا ہے ڈرانا دھمکانا اس