اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
طرح رستم کا حوالہ بھی عوام کی زبان پر طنز کے طور پر آتا ہے کہ وہ بڑے رستم زماں بنے پھرتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو" رستم کا سالا" سمجھتے ہیں افواہِ عوام میں پڑی ہوئی بات کو آسانی سے ردّ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تو ہمارے محاورہ کا حصّہ بن جاتی ہے اور جیسا کہ روز اشارہ کیا گیا ہے جو محاورہ میں آئی ہوئی بات اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ ہماری سائکی میں اتر گئی ہے نفسیات کا جُز بن گئی وہ تاریخ نہیں ہے افسانہ ہے لیکن سماجی سچائی کا حصّہ ہے۔رس مارے رسائن ہو "رس" کا لفظ ہندی میں بہت بامعنی لفظ ہے اس کے معنی"لطف و لذت" کے بھی ہیں جذبہ و احساس کے بھی، مشروبات (پینے) کی چیز میں اور مسموعات میں بھی یعنی جو ہم سنتے ہیں جیسے کانوں میں "رس گھولنا" رسیلی آواز" رس بھرا لہجہ" ایسا پھل جس کا عرق میٹھا اور خوش ذائقہ ہوتا ہے وہ بھی رسال رسیلا اور رس بھرا کہلاتا ہے۔ "رس بھری" ہمارے یہاں ایک پھل بھی ہے۔ ہندی میں مختلف جذبوں کو"رس" کہتے ہیں جیسے ہاسیہ سے ہاسیہ رس، ویر رس شر نگار رس یہاں اس محاورے میں "رس" کورساس کہا گیا ہے رسائن کے معنی ہیں ۔ دوا علاج کی غرض سے کھِلائی پلائی جانے والی اشیاء اِس محاورے کے معنی ہوئے کہ اگر وہ رس کا چھینٹا مار دے اچھی بات کہہ دے تو جی خوش ہو جائے اور ایسا محسوس ہو جیسے کسی دُکھ درد کی دوا مل گئی یہ خالص ہندوی محاورہ ہے اُردو میں مستعمل نہیں مگر بہت اچھا ہے۔رسّی جل گئی پربل نہیں جلا، یا رسّی جل گئی پربل نہیں نکلا(گیا) ایک اہم سماجی محاورہ ے"رسی" ایسے میٹریل سے بنائی جاتی ہے جو گل بھی جاتا ہے اور جل بھی جاتا ہے لوہے کی رسیّوں کا تصور پہلے زمانہ میں نہیں تھا وہ اب کی بات ہے ایسی صورت میں اگر رسّی جل بھی جاتی تھی تو اس کے بل راکھ میں بھی نظر آتے تھے۔ اس مشاہدہ سے یہ محاورہ اخذ کیا گیا کہ رسی جل