اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اردوشعر و ادب میں محاورہ گذشتہ سطور میں محاورہ کی ادبی تہذیبی اور معاشرتی اہمیت کی طرف اشارہ کر دیئے گئے ہیں اُن سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ محاورہ زبان کی ساخت اور اُس کی ادبی پرداخت میں کیا خاص کردار ادا کرتا ہے اور صدیوں تک ادا کرتا رہا ہے۔ جب زبان آگے بڑھتی اور پھیلتی ہے مختلف دائروں اور تہذیبی حلقوں میں اپنا اثرو نفوذ پیدا کرتی ہے تو اس کی تزئین اور ترسیل میں جو باتیں یا خو بیاں خصوصیت کے ساتھ حصہ لیتی ہیں ان میں تشبیہہ استعارہ تلمیح اور محاورہ خاص طور پر شریک رہتا ہے کہیں شاعر مقر ر افسانہ گو اور داستان نگار تشبیہ سے کام لیتا ہے۔ ایک شے وجود کو دوسری شے یا وجود سے مشابہت دی جاتی ہے تو تشبیہہ کا رشتہ پیدا ہوتا ہے جو مثال کا رشتہ کہلاتا ہے یعنی وہ شے ایسی ہے جیسے فلاں شے ہے۔ اور جب تشبیہہ کے رشتہ کو مستقل طور پر اُس شے سے وابستہ کیا جاتا ہے تو وہ استعارہ یا علامت بن جاتی ہے جیسے سورج چاند پھول شاخ گل شمشیر ستارہ ماہ نو وغیرہ وغیرہ یہ تشبیہیں بھی ہیں استعارے بھی اور جب بہت سی باتیں خیالات تصورات اور تاثرات کسی شے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں تو وہ علامت بن جاتی ہے وہ علامت تمثیل کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور کہیں تلمیح کی صورت میں سامنے آتی ہے جب ہم استعارہ کی بات کرتے ہیں تو اس کا رشتہ یا ذہنی سلسلہ اِدھر سے اُدھر تک جڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ خیال حال تجربہ اور مشاہدہ سے تعلق رکھنے والے امور ہیں انفرادی سطح پر بھی ایک شاعر ایک فنکار ایک داستان گو اپنے فنکارانہ انداز نظر اور اپنے تہذیبی نقطہ نگاہ کے ساتھ تشبیہوں اور استعاروں تلمیحوں کو اپنے انتخاب اور استعمال میں شریک رکھ سکتا ہے۔ محاورہ ایک طرح سے زبان میں استعاراتی عمل ہے جس میں کہیں تشبیہ کا رشتہ قائم ہوتا ہے کہیں تمثیل کا کہیں تلمیح کا اِس سے ایک خاص معنی مراد لئے جاتے ہیں یہ معنی مرادی ہوتے ہیں عام لُغت کے تابع نہیں ہوتے جیسے ہم محاورہ کے طور پر" آگ بگولہ ہونا" کہتے ہیں اور اُس سے غیر معمولی غصہ اور طیش کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ محاورہ ذہنوں میں ایک تصویر یا مجسم شکل اختیار کر لیتا ہے اور اُس سے وہی معنی سمجھے اور سمجھائے جاتے ہیں جو ایک طرح سے اُس محاورہ کے ساتھ روایت یا ٹریڈیشن کی شکل اختیار کر لیتے ہیں زمانہ بہ زمانہ لفظ استعارہ تشبیہ وغیرہ اپنے معنی میں تبدیلیاں پیدا کرتے رہتے ہیں الفاظ بھی شکل بدل دیتے ہیں لیکن محاورہ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے وہ گویا جہانِ لفظ و معنی میں ایک پتھر کی لکیر کی طرح ہوتا ہے جو صدیوں تک بلکہ ایک ایسے زمانہ تک جس کا تعین