اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اس سے تاریخ کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ مسلمانوں میں دو ہی سنین جاری رہے ہیں ، ایک ہجری، دوسرا عیسوی۔ عیسوی سن بھی کم نکالا جاتا ہے۔ ہندو سمبت استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن ان کے ہاں تاریخ نکالنے کا کوئی دستور نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ حروف ہی ان کی زبان میں شامل نہیں تو ان کے اعداد وہ کیسے مقرر کریں ۔ غرض کہ اُن حروف سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے اَبجدی ترتیب کہتے ہیں ۔ اس کے برعکس ا، ب، ت، ث، سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے ترتیبِ حروفِ "ہجا" کہا جاتا ہے۔ یہاں محاورہ میں "ابجد خواں " کہا گیا ہے۔ اِس سے مراد صرف ا، ب، ت، ث لی گئی ہے۔ حروفِ"اَبجد" نہیں ۔ یعنی میرا معاملہ تو صرف حروف شناسی کی"حد"سے آگے نہیں بڑھتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کے نزدیک علم کا معیار کافی اونچا تھا اور از راہِ کسر نفسی ایک پڑھا لکھا آدمی بھی خود کو "ابجد خواں " کہتا تھا اور دوسروں کی کم علمی کا اظہار بھی اسی انداز سے کیا جاتا تھا۔آب و دانہ اُٹھ جانا آب، پانی۔ دانہ، کوئی بھی ایسی شے جو خوراک کے طور پر لی جائے۔ اور پرندے تو عام طور پر دانہ ہی لیتے ہیں ۔ چونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آدمی کا رزق اوپر سے اترتا ہے اور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جس کو جہاں سے چاہے رزق دے۔ اور یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہوتا ہے اور تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا خبر ہے کس کا آب و دانہ کب اٹھ جائے اور جب تک آب و دانہ ہے، اسی وقت تک قیام بھی ہے۔ جب آب و دانہ اٹھ جائے گا تو قیام بھی ختم ہو جائے گا۔ یہ محاورہ ہمارے تہذیبی تصورات اور زندہ رہنے کے فطری تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ "آب و دانہ"، "آب و خور" اور"آب و خورش" بھی اسی ذیل میں آتے ہیں ۔ یہ ایک ہی محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں ۔ خُورش، خُور اور خُوراک فارسی الفاظ ہیں اور اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔