اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
"چندن" کے چھاپے منہ پر لگانا اپنے کردار کی خوبیوں کو ظاہر کرنا ہے اور سرخ روئی کا نشان ہے اِس کے علاوہ صندل کی تختی بھی خوبصورتی اور وجود کی پاکیزگی کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض محاورات کو تراشنے میں ہماری زبان کے بولنے والوں نے کس حد تک شاعرانہ طریقہ رسائی کو اپنے سامنے رکھا ہے۔ بعض محاورے انتہائی مبالغہ آمیز صورتوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔ جیسے آگ کھانا اور انگارے"اُگلنا"، بعض محاورے اِس کے مقابلہ میں سماجی تلخیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اسی پس منظر میں اُن کے معنی اور معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے بعض محاوروں سے زندگی کی خوشگواریاں ظاہر ہوتی ہیں جیسے زہر بجھے ہوئے تیروں مقابلہ میں شیر و شکر ہونا۔ شہد جیسے تیروں کے مقابلہ میں شیر و شکر ہونا۔ شہد جیسے میٹھے بول کہہ کر خوشی کا اظہار کرنا۔ اسی طرح صندل کی تختی"صندل"کا چھاپہ شاعرانہ تشبیہات اور استعاروں کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمارے طریقہ فکر اور طرزِ اظہار کے مختلف سلیقوں کو محاورے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اگرچہ محاوروں پر اس رشتے سے کم نظر ڈالی گئی ہے۔صُورت حرام صُورت پر بہت سے محاورے ہیں جیسے یہ صُورت اور"مسور کی دال" یا اُجاڑ صورت یا پھر صورت حرام صورت کے ساتھ اُجاڑ منحوس یا"حرام" کا لفظ استعمال کرنا ذہنی تلخیوں کا اظہار ہے۔ صورت پر پھٹکار برستی ہے اس محاورے سے بھی اسی صورتِ حال کا اظہار ہوتا ہے شیطان کی سی"تھوپڑی" بیل جیسا منہ وغیرہ محاورات اسی جذبہ کا اظہار ہیں کہ کوئی شخص دوسرے سے اُس حد تک ناراض ہو کہ اِس کی شکل سے بیزار ہونا اُس کے رو یہ میں شامل ہو جائے۔