اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
نقصان نہ پہنچ جائے اسی کو ہاتھ پیر بچانا کہتے ہیں ہاتھ پیر پھُولنا گھبراہٹ طاری ہونے کو کہتے ہیں ۔ غالب کا شعر ہے۔ اسد خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھُول گئےکہا جب اُس نے ذرا مرے پاؤں داب تودے ہاتھ پاؤں سے دُرست ہونا، اچھی صحت ہونا اور ہاتھ پاؤں میں کسی طرح کی خرابی نہ ہونا ہے مُردوں کو ہاتھ پاؤں کی درستی اور قوت کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے اور عورتوں کو ناک نقشہ کی خوبی کے لحاظ سے اسی لئے جب کسی عورت یا لڑکی کو قبول صورت کہنا ہوتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ وہ نک سک سے دُرست ہے اِس لحاظ سے یہ محاورہ گھر آنگن کی فضا اور گھریلو سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جانا، ہاتھ پاؤں چلنا خوف و دہشت طاری ہونے کے لئے کہا جاتا ہے کہ مارے خوف کے مرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے کہ اب کیا ہو گا اور کیسے ہو گا؟ ہاتھ پاؤں چلتے رہنا اس حد تک طاقت قائم رہنا ہے کہ آدمی چلتا پھرتا رہے اسی لئے جب اپنے لئے دعا کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ پاک چلتے ہاتھ پیر اٹھا لے۔ہاتھ پاؤں چھُوٹنا گھر آنگن کا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں خیر و عافیت سے بچہ کی پیدائش ہو جائے اس لئے کہ یہ مرحلہ بہرحال نازک ہوتا ہے تو یہ دعا ایک حاملہ عورت کودی جاتی ہے کہ اللہ پاک خیریت سے ہاتھ پاؤں چھڑا لے۔ یعنی یہ مرحلہ ہنسی خوشی گزر جائے۔ محاورے کی لفظیات اور نفسیات پر اگر غور کیا جائے تو اس سے ہماری معاشرتی زندگی کے مختلف پہلو اور اُن کے بارے میں ہماری سوچ کا سلسلہ سامنے آتا ہے۔