اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
لہُو کا پیاسا یا خون کا پیاسا ہونا ہم تاریخ میں اس طرح کے واقعات پڑھتے ہیں کہ دشمنی میں کسی نے مقتول آدمی کا جگر چبا لیا یا مخالف کو قتل کر کے اس کا خون پی لیا۔ اسی پس منظر میں یہ محاورہ سامنے آیا کہ وہ تو اس کے خون کا پیاسا ہے جو بھی جانی دشمن ہوتا ہے اسے خون کا پیاسا کہتے ہیں ترکوں اور"تاتاریوں " کی خون آشامیوں کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کی گردن کی رگ میں شِگاف کر کے ان کا اپنی پیاس بجھانے کے لئے خون پی لیتے تھے یہ بھی خون کا پیاسا ہونے کی ایک صورت ہے محاورات میں تاریخ کے جورو یہ محفوظ ہو گئے ہیں ان میں خون کا پیاسا ہونا بھی ہے۔لہو کا جوش، لہو کے سے گھونٹ پینا، لہو کا جوش مارنا کسی سے تعلق خاطر اور اپنائیت کے جذبہ کے تحت والہانہ طور پر ملنا یا اُس کو یاد کرنا خون کا جوش مارنا ہے تمام رشتوں میں خون کا رشتہ زیادہ اہم اور مضبوط خیال کیا جاتا ہے اسی لئے خون کا جوش مارنا محاورہ بن گیا۔ اِس کے مقابلہ میں لہو کے سے گھونٹ پینا یا دینے والے رو یہ کو برداشت کرنا ہے کہ میں یہ سنتا ہوں دیکھتا ہوں اور خون کے سے گھونٹ پیتا ہوں جو ایک نہایت مجبوری کا عالم ہوتا ہے محاورے میں ہمارے جو حسیاتی اور جذباتی تجربہ شامل ہوتے ہیں اور پھر ہم ان کا تجزیہ کرتے ہیں تو عجیب عجیب صورتیں سامنے آتی ہیں یہ محاورے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔لہو لگا کے شہیدوں میں داخل ہونا یہ سماج کے اس رو یہ پر ایک تنقید ہے کہ عام طور سے لوگ کچھ کرنا نہیں چاہتے لیکن ایکٹنگ اِس طرح کی کرتے ہیں اور دعویٰ دار اس امر کے بنتے ہیں کہ انہوں نے بہت کچھ کیا ہے یہی کہ انگلی کٹا کے یا لہو لگا کے شہیدوں میں داخل ہونا محاورہ پیدا ہوا ہے کہ برائے نام کچھ کیا جائے اور اس کا پورا کریڈٹ لیا جائے۔