اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کو بڑھایا اور دوسرے نے تیسرے کو یہی گویا چراغ جلنا ہوا اور سماج کی وہ نیکی اور بھلائی کہ ایک آدمی سے دوسرا آدمی کوئی سبق سیکھے، کو ئی روشنی حاصل کرے۔ کبھی کبھی کوئی ایسا شخص بھی ہوتا ہے جو تمام کنبے، خاندان، بستی، یا شہر کے لئے شہرت یا عزت کا باعث ہوتا ہے۔ اُس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ شہر کا چراغ ہے۔ غالب کے مرثیہ میں حالی نے کہا تھا۔ شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا چراغ روشن مراد حاصل ایک دُعا ہے کہ چراغ روشن ہو گا تو گویا مرادیں حاصل ہوں گی۔ چراغاں ہمارے یہاں خوشی کے موقع پر بہت سے چراغ جلائے جاتے ہیں ۔ اُس کو چراغاں کہتے ہیں ۔ دیوالی پر یا عُرس کے موقع پر یہی چراغاں تو کیا جاتا ہے۔ ہندوانی رقص ایک وہ بھی ہوتا ہے جو چراغوں کی تھالی سر پر رکھ کر کیا جاتا ہے اُس کو رقص چراغ کہتے ہیں بعض مندروں خانقاہوں اور مزارات پر بہت سے چراغ جلانے کے لئے مینار بھی تعمیر کئے جاتے ہیں جسے چراغ مینار کہتے ہیں ۔چشم پوشی کرنا چشم سے متعلق ہمارے ہاں بہت سے محاورے ہیں اُن میں " چشم نمائی"، چشم بد دُور، چشمِ بیمار جیسے ترکیبی محاورے شامل ہیں مثلاً چشمِ بیمار ایک شاعرانہ اندازِ نظر ہے خماری آنکھیں ، چشمِ نیم بار یا چشمِ نیم خواب جن آنکھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اُن کو محاورہ چشمِ بیمار بھی کہا جاتا ہے۔ غالب اپنے ایک دوست اور شاگرد میرن صاحب کی آنکھوں کو چشمِ بیمار کہتے تھے اس سلسلے میں یہ تشریح بھی آئی ہے کہ خمار آلود یا متوالی آنکھیں یہ عام طور پر معشوقوں کی آنکھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور اُس سے ہمارے معاشرے کی تہذیبی سطح کا بھی شاعرانہ اظہار ہوتا ہے۔