اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
تقدیر کا لفظ بدل کر کبھی قِسمت کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے قِسمت کا لکھا قِسمت کا کھیل قِسمت کا بننا اور بگڑنا کہا جاتا ہے۔تلوار کو میان میں رکھنا، تلوار کی آنچ، تلوار گر جانا، تلوار میان سے نکلی پڑتی ہے۔ تلواروں کی چھاؤں میں ۔ تلوار جسے تیغ بھی کہا جاتا ہے وسطی عہد کا ایک بہت معروف اور ممتاز ہتھیار رہا ہے قدیم زمانہ کی تلوار ایک خاص طرح کی ہوتی تھی جسے کھانڈا کہتے تھے جہاں "ل" کو"ڑ" سے بدلا جاتا ہے وہاں تلوار کا تلفظ"ترواڑ" ہو جاتا ہے۔ جو لوگ سپاہی پیشہ خاندانوں کے افراد ہوتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تلواروں کی چھاؤں میں پلے بڑھے ہیں اقبال کا مصرعہ ہے تیغوں کی چھاؤں میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں تلوار چلنا، تلوار کا کسنا یعنی اس کی لچک دیکھنا تلوار کا پانی، اس کی دھار، اس کی آب و تاب اور دھار، تلوار کا میان سے نکلنا یا میان میں رکھا جانا یہ سب تلوار کے استعمال سے متعلق باتیں ہیں تو اُس زمانہ کی زندگی میں عام تھیں ان میں تلوار کے گھاٹ اتار دینا بھی تھا۔ ہمارے ہاں اردو میں محبوب کی بھوں کو تلوار سے تشبیہ دی جاتی ہے اس سے بھی تلوار سے ذہنی اور سماجی رشتوں کا پتہ چلتا ہے۔تمہارے منہ میں کبھی شکر یا گھی کھانڈ شکر ہویا پھر شکر وہ مٹھاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پسند یدہ اشیاء ہیں گڑ کھانڈ اور راب بھی اسی ذیل میں آتے ہیں اسی لئے اس طرح کے محاورے بھی ہیں گڑ نہ دبے گڑ جیسی بات کہہ دیئے گڑ اور گھی کا ایک ساتھ استعمال دیہات کی سطح پر بہت پسند کیا جاتا ہے شکرانہ میں خاص طور پر گھی اور کھانڈ یا گھی اور شکر استعمال ہوتے تھے دیہات میں لال شکر اور شہروں میں گھی اور پورا خاص طور پر استعمال میں آتا تھا اور اس کے نیچے چاول ہوتے تھے۔