اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
توہر چیز مٹتی یا بدلتی چلی گئی اسی مشاہدہ نے آدمی کو یہ سبق دیا کہ پانی پر جو نقش بنتا ہے وہ نا پائیدار ہوتا ہے اُس کے مقابلہ میں نقش کلمہ حجر یعنی وہ نقش جو پتھر پر ہو جو کسی کے مٹائے نہیں مٹتا اسی لئے اُردُو محاورات میں اِس محاورے کا استعمال پائیداری کے لئے ہوتا ہے کہ اس کا نام تو نقش کلمہ حجر ہو گیا یہ عربی ترکیب لفظی اُردُو کی ساخت پربھی روشنی ڈالتی ہے کہ اُس میں عربی فارسی" ہندی سنسکرت وغیرہ بولیوں اور زبانوں کے الفاظ خلط ملط ہو گئے ہیں ۔ اور انہی کی وجہ سے وہ ایک کھچڑی زبان ہے۔نکلے ہوئے دانت پھر نہیں بیٹھتے محاورات میں بہت سے محاورے انسان کے بدن اور بدن کے اعضاء سے متعلق ہیں اُن میں دانت بھی ہیں اُن کی تعداد کافی محاوروں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دانتا کل کل ہونا، "منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت" نہ ہونا"دانت کاٹی روٹی ہونا، دانت رکھنا کس طرح کے یہ محاورے ہیں جو دانتوں سے تعلق کے ساتھ زندگی کے مختلف مراحل کو پیش کرتے ہیں خاص طور پر بڑھاپے کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔ جس میں کہیں تشبیہ کہیں استعارہ کہیں کہاوت کہیں مشاہدہ اور کہیں زندگی کا کوئی انوکھا تجربہ شامل رہتا ہے۔نمک حلالی کرنا، نمک حرامی کرنا نمک ہمارے یہاں بہت بڑی نعمت خیال کیا جاتا ہے اسی لئے نمک کے ساتھ وفاداریوں کا تصور وابستہ ہے اور جو کسی کا نمک کھاتا ہے وہ اُس کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور اُس کے لئے اپنا خون پسینہ بہانے پر تیار رہتا ہے ایسے ہی کسی شخص کو نمک خوار ہونے کے علاوہ نمک حلال کہا جاتا ہے پہلے زمانہ میں لوگ اِن قدروں کو بہت مانتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے آپ کا نمک کھایا ہے جو لوگ اپنے آقا کے یا اپنے محسن کے وفادار نہیں ہوتے وہ نمک حرام کہلاتے ہیں ایسا ہی کوئی کردار دہلی میں تھا جس کی حویلی اب بھی"نمک حرام کی حویلی"کہلاتی ہے۔ الفاظ کن حالات کن خیالات، اور کن سوالات کے ساتھ اپنے معنی کا تعین کرتے ہیں اُن کی مثالیں نمک سے وابستہ محاوروں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں ۔