اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
غُلام مال جو چیز بہت سستی مگر مضبوط اور پائیدار ہوتی تھی وہ غلام مال کہلاتی تھی امیروں کے محل میں کچھ خاص راستہ غلام گردش کہلاتے تھے۔ اب بھی کہتے ہیں ماضی کی غلام گردشوں سے گزرتے ہوئے یعنی اُن حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران جو تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں اور غلاموں نیز باندیوں سے متعلق ہیں ۔غُلامی کا خط لکھنا(خطِ غلامی لکھ دینا) اُس وقت کہتے ہیں جب آدمی کوئی شرط ہار جاتا ہے کہ خط کے معنی ہیں یہاں تحریر یا دستاویز کہ اگر میں شرط ہار گیا یا میری بات غلط ثابت ہوئی تومیں خط غلامی لکھ دوں گا یا آپ کا غلام ہو جاؤں گا ہمارے معاشرے میں تو بات یہاں تک آتی تھی کہ دیکھو اگر تم شرط ہا ر گئے یا تمہارا جھوٹ ثابت ہو گیا تو تم کان ناک دیکر آؤ گے یا تمہارے کان کاٹے جائیں گے یا ناک یعنی تم بے عزت ہو جاؤ گے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بات کی پچ کیسے نبھائی جاتی تھی یا اُس پر زور دیا جاتا تھا قبائل معاشرے میں یہ باتیں زیادہ دور دراز انداز میں یا دعووں کے ساتھ کی جاتی تھی اور اس طرح ہمارے یہ محاورے ایک خاص دور کے ذہن و کردار کو پیش کرتے ہیں ۔غلامی میں دیتا ہوں ، یا غلامی میں دینا ہمارے ہاں گفتگو کے جو آداب ہیں اور سوچنے کا جو ڈھنگ ہے اُس کے مطابق انکساری برتنا آدابِ گفتگو کا حصّہ ہے جب کسی لڑکے کا رشتہ بھیجا جاتا ہے تو لڑکی والوں کے احترام کے خیال سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو آپ کی غلامی دینا چاہتا ہوں یعنی یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رشتہ داری کو قبول کر لیں اب یہ الگ بات ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ جس کو کنیز یا باندی بنا کر دیا جاتا ہے سسُرال میں مشکل ہی سے کوئی اچھا سلوک ہوتا ہے اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کہنے اور کرنے میں بہت فرق رہتا ہے اسی لئے ہم دوسروں پر اعتبار نہیں کرتے اور بات کو پلٹنا بھی ہم سماجی طور پر کوئی عیب خیال نہیں کرتے۔غم غلط کرنا