اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
سماجی رو یہ ہوتا ہے اسی طرح شاخسانے نکالنا ہمارے معاشرے کا خاص انداز ہے سورج کا ڈھنگ ہے۔شادیِ مرگ ہونا اتنی خوشی ہونا کہ آدمی کی حرکت قلب بند ہو جائے کہ اس پر موت طاری ہو جائے انسان ایک جذباتی جاندار ہے وہ ایک وقت میں اتنا ناراض ہوتا ہے کہ دوسرے کا خون کر جاتا ہے یہاں تک کہ خون کو پی لیتا ہے جگر چبا لیتا ہے آدمی کی بوٹیاں چیل کوَّے کو کھلا دیتا ہے اتنا مہربان ہوتا ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے عشق کرتا ہے تو جنگل جنگل صحرا صحرا بھٹکتا ہے بقولِ فراق۔ پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئےوہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے انسان کی جذباتیت کا ایک پہلو جو محاورہ بن گیا وہ یہ بھی ہے کہ اپنی غیر معمولی حیثیت کے زیر اثر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اس لمحہ پر مر مٹتا ہے اس محاورے میں ایک طرح سے انسان کے جذبات اور حسّیات پر روشنی ڈالی گئی ہے جواس کے معاشرتی روشوں پر اثرانداز ہونے والی سچائی ہے۔شامت آنا، شامت سر پر کھیلنا، یا شامت اعمال ہونا ہر عمل اپنا نتیجہ رکھتا ہے اگر عمل اچھا ہو گا تو نتیجے بھی اچھے ہوں گے اگر عمل خراب ہو گا تو نتائج بھی برے نکلیں گے یہ ہماری سماجی مذہبی اور تہذیبی سوچ ہے۔ اسی لئے برے عمل کے نتیجے کو شامت آنا کہتے ہیں اور اردو میں شامت کے معنی ہی برے نتیجے کے ہیں کسی مصیبت کے پھنسے کو شامت آنا کہتے ہیں غالب کا شعر ہے۔ گدا سمجھ کے وہ چُپ تھا مری جو شامت آئیاٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئےشاہ عبَّاس کا عَلم ٹوٹنا