اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کاٹ کرنا ہم عام طور سے گروہ بندی یا ذہنی گروہ بندی کا شکار رہتے ہیں جس کے حامی اس کی بے جا حمایت کرتے ہیں اور جس سے اختلاف ہوتا ہے اُس کی ناروا مخالفت (ناجائز) کرتے ہیں اسی کو کاٹ کرنا کہتے ہیں کہ وہ اس کی بات کی کاٹ کرتا ہے اس محاورے سے ہمارے تہذیبی رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ ہم سچائی اور اچھائی پر اتنی نظر نہیں رکھتے جتنی ہماری طبیعت اپنے اور غیریت کی طرف مائل رہتی ہے یہ سیاست میں تو ہوتا ہی ہماری گھریلو زندگی اور آئینی معاملات میں اس کو زیادہ دخل ہے۔کاٹ کھانا، کاٹ کھانے کو دوڑنا کاٹ کھانا ڈنک مارنے کو بھی کہتے ہیں اور دانتوں سے کانٹے یا زخم پہنچانے کو بھی ایک طرف بچھو یا سانپ کا کاٹنا ہے دوسری طرف کتے کا کاٹنا ہے یا اُن تجربوں کی روشنی میں سماجی طور پر دوسروں کے بُرے ردِ عمل یا رو یہ کو بھی ہم کاٹ کھانا کہتے ہیں اور کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے اس کے جارحانہ رو یہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ سماج میں بہت لوگوں کا رو یہ کچھ اسی طرح کا ہوتا یہ جسے معقول رو یہ نہیں کہا جا سکتا محاورے میں اس کی طرف اشارہ کر کے صورتِ حال کو ظاہر کیا جاتا ہے۔کاٹو تو خون نہیں یا لہو نہیں (بدن میں ) انسان کی صحت و عافیت کا دارومدار جسمانی صحت و تندرستی پر ہوتا ہے اور تندرستی لوگوں میں خون کے دوڑنے پھرنے کے عمل سے وابستہ ہے انسان کبھی کبھی خون کی کمی کا شکار ہوتا ہے اور اسی نسبت سے کمزوری کا بھی کبھی کبھار ایک دم سے کوئی بات ایسی ہوتی ہے کہ آدمی کا خُون خشک ہو جاتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ڈر خوف دہشت انتہائی غمناک حالت کے باعث اس کے بدن میں خون نہیں رہا ایسے ہی موقع پر یہ کہتے ہیں کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں ۔ یہ گویا محاورے میں ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ فکر شامل کرنا ہے۔کاٹھ کا الو، کاٹھ کا گھوڑا، کٹھ پتلی الو ایک چکوتری کی نسل کا جا نور ہوتا ہے یہ عام طور پر دن میں نہیں نکلتا رات ہی کے وقت اپنے آشیانہ سے باہر آتا ہے منحوس سمجھا جاتا ہے معلوم نہیں کیوں