اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
صورت تھی کہ بیوی اس کی آقا بن جائے اور شوہر اس کا غلام نظر آئے۔ یہ صورت حال معاشرہ پسند نہیں کرتا تھا۔ تبھی تو طنزا ً کہا گیا کہ بیوی کا غلام ہے۔ردیف "پ" پابوس ہونا ہمارے یہاں قدموں کا بہت احترام کیا جاتا رہا ہے اس کا اندازہ اُن محاوروں سے ہوتا ہے جو قدموں سے نسبت کے ساتھ ہماری زبان میں رائج ہیں اور رائج رہے ہیں ۔ پیر دھونا پیر دھو دھوکر پینا۔ پیروں کی دھُول ہونا۔ قدموں پر نچھاور ہونا قدم چومنا قدموں کو بوسہ دینا قدم بوس ہونا قدم چھونا قدم رنجہ فرمانا یا قدومیمنت (مبارک قدم) قدموں کی برکت قدم گاہ وغیرہ اس سے معاشرے میں احترام کے تقاضوں کی نشاندہی ہوتی ہے یہ ہند ایرانی تہذیب کا ایک مشترک رو یہ سمجھا جانا چاہیے ہمارے ہاں بزرگانِ دین کے ساتھ اور خاص طور سے صوفیوں کے ساتھ یہ رو یہ آج بھی برتا جاتا ہے کہ ان کے قدموں کو چھوتے ہیں ہندوؤں میں پنڈتوں کے لئے کہتے ہیں "پالا گن مہاراج" یعنی ہم حضور کے قدم چھوتے ہیں اور اُن پر نچھاور ہوتے ہیں جب کسی سے دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ تو اس کے قدموں کی دھول کے برابر ہے یا میں تو آپ کے قدموں کی خاک ہوں یا خاک کے برابر بھی نہیں ہوں اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرح سوچتا سمجھتا اور کرتا رہا ہے۔ غالب کاشعر یاد آتا ہے۔ کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لئےکیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں یعنی آسمان کو قدم بوسی کی اجازت ہے تو مجھے کیوں نہیں ہےپاپ چڑھنا، پاپ ہونا، پاپ کرنا، پاپ سے بچنا، پاپ کاٹنا، پاپ کھانا