اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
پر ایک بات کا جائزہ نہ لیا جائے اور یہ تجزیہ نہ کیا جائے کہ اس میں کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ کسی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت اس میں ہے بھی یا نہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو یہی فکر و نظر اور احساس و ادراک کی نا رسائیوں کا باعث بننے والی ایک معاشرتی کمزوری ہے۔ جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔اَڑنگ بَڑنگ اصل میں جو چیزیں ، جو خیالات سماج کو بے تکے پن کی طرف لاتی ہیں ، وہی اڑنگ بڑنگ کہلاتی ہیں ، یعنی بے تکی، بے ڈھنگی، بے ہنگم۔ یہ عوامی الفاظ ہیں ۔ اُن کا استعمال اب زبان میں کم ہو گیا ہے۔ لیکن عمومی سطح پر اب بھی ہم انہیں محاورات میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ "اڑنگا لگانا" ایسا ہی ایک محاورہ ہے جس سے دوسرے کے کام میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ بننے کا رو یہ سامنے آتا ہے، جو ایک طرح کا بُرا اور بُرے نتیجے پیدا کرنے والا سماجی رو یہ ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس نے خواہ مخواہ"اڑنگا لگا دیا" رکاوٹ پیدا کر دی، الجھنیں کھڑی کر دیں ۔ اس سے ہم اپنے سماجیاتی مطالعہ کے بعض پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں جو کام، جو شے یا جو تعمیر بے ڈھنگی ہوتی ہے، اُس کے بے ہنگم پن پر تبصرہ بھی اَڑنگ بڑنگ کہہ کر کیا جاتا ہے۔اُڑی اُڑی طاق پر بیٹھی ویسے تو ایک چڑیا کا اُڑنا اور اِدھر سے اُدھر بیٹھنا اِس میں شامل ہے، لیکن محاورے کے سماجی استعمال اور معاشرتی رویوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کون کون سے عملی اور ذہنی رویّے اس میں شامل ہیں ۔ اُڑنا انسان کو ہمیشہ ہی اچھا لگا اور خود وہ طرح طرح سے اُڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی لیے اُڑنے کے عمل پر بہت سے محاورے موجود ہیں ۔ محاوروں کا رشتہ ہمارے جذبات سے، خواہشات سے اور تمنّاؤں سے طرح طرح سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس میں ہمارے خواب بھی آ جاتے ہیں ، خیال بھی اور تمنائیں بھی۔ کوئی محاورہ کسی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف اس میں اُس کی ناکامیاں آتی ہیں ، دوسری طرف کامیابیاں اور تیسری طرف تمنائیں اور ضرورتیں ، مجبوریاں ۔ ایک محاورہ ہے"اَڑی بھِیڑی میں کام آنا"، یعنی جب کوئی صورت نہ ہو اور ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوں ، اس وقت کوئی کام آ جائے تو کتنی بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک کہاوت ہے، "بیوی بھلی پاس کی،