اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائلجو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے یہاں رگ رگ سے مُراد نس نس ہی ہے" ناسوں میں کو"نکالنا بہت تکلیف دے کر کسی کو اُس کے عمل کی سزا دینا یہ بھی نس نس ہی سے تعلق رکھتا ہے" نس پھڑکنا"بھی محاورہ ہے۔ اور کسی کی یاد آنے اور کسی بات کا احساس ہونے کو نس پھڑکنا کہتے ہیں " نس پرنس چڑھ جانا" رگ پٹھوں میں کوئی ایسی تکلیف ہوتی ہے جس کو ہم اچانک محسوس کرتے ہیں اور اُسے نس پر نس چڑھ جانے سے تعبیر کرتے ہیں یہ تکلیف اکثر پنڈلیوں میں ہوتی ہے اور نروس سسٹم میں کوئی ایسی عارضی خرابی اِس کا سبب بنتی ہے جس کو فوری طور پر سمجھا نہیں جاتا اسی سلسلہ میں اردو کا ایک شعر ہے۔ رگ و پے میں جب اُترے زہرِ غم تب دیکھئے کیا ہوابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے یہاں رگ و پے میں اترنے کے جو معنی ہیں وہی نس نس میں اُترنے کے بھی ہیں اِن محاوروں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بعض فقرہ اور الفاظ ایک خاص معنی کی پابندی کے ساتھ نئے معنی اختیار کر جاتے ہیں اور اسی سے محاورہ بنتا ہے۔نشہ ہونا، نشہ پانی کرانا، نشہ کرنا، نشہ کا عادی ہونا نشہ دراصل کیفیتِ خُمار کو کہتے ہیں جو اکثر شراب پینے سے ہوتا ہے۔ محاورتاً کسی بھی حالت میں اگر سرشاری کی کیفیت میسَّر آ جائے تو اسے بھی نشہ ہونا کہتے ہیں ۔ "نشہ پانی کرنا یا کروانا" نچلے شرابی کبابی طبقہ کا محاورہ ہے شراب اونچے طبقہ میں بھی پی جاتی ہے مگر وہ لوگ اسے نشہ پانی کرنا نہیں کہتے نشہ کا عادی ہونا تقریباً روز شراب پینا ہے نشہ پانی کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ محاورات میں بھی کہیں کہیں طبقاتی اندازِ نظر کا فرق موجود ہے۔ اِس سے ہم زبان کے استعمال میں بھی طبقاتی سطح اور انداز نظر کے فرق کو سمجھ سکتے ہیں ۔