اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
"رُوح" ہمارے جسم میں وہ جوہر یاقوّت ہے جو بھیدوں بھری ہے وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے یہ کوئی نہیں جانتا مگر اسی کے سہارے ہم زندہ رہتے ہیں اور اسی کے تقاضہ ہمیں اپنی مادّی ضرورتوں سے اوپر اٹھاتے ہیں ہماری ایک انسانی اور رُوحانی اخلاقی اور مذہبی سوچ بنتی ہے جس سے نسبت کے ساتھ ہم اُسے روحانی طریقہ فکر کہتے ہیں ۔ ہمارا خوف دہشت تکلیف اور راحت سب رُوح کے ساتھ ہے رُوح بدن سے نکل گئی تو نہ کچھ تکلیف ہے نہ راحت ہے نہ زندگی ہے نہ قیام ہے نہ بقا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارا بدن یا جسم ناشور ہے (فنا ہونے والا ہے) اور باقی رہنے والی رُوح ہے جو نہ کٹ سکتی ہے نہ گُل سکتی ہے۔ اسی سے ہمارے بہت سے محاورے بنے ہیں ۔ رُوح کے بھٹکنے کے معنی ہیں کہ انسان کا ذہن بھٹک رہا ہے اُس کو سکون نہیں مل رہا ا س سے ایک خیال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح بھٹکتی ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت یا دوزخ یا اعراف میں چلی جاتی ہے تصورات ہیں جو اعتقاد ات میں بدل گئے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا ہم سے تعلق ہمارے بدن اور ہماری زندگی کے معاملات سے اس کا رشتہ انسانی نفسیات کا اور اُس سے آگے بڑھ کر سماجیات کا ایک گہرا رشتہ ہے جس کی طرف مذکورہ محاورات اشارہ کرتے ہیں روح تھرّانا انتہائی خوفزدگی ہے سراسیمگی اور پریشانی کا عالم ہے۔روغنِ قاز ملنا روغنِ قاز ملنا ایک عجیب و غریب محاورہ ہے"قاز" جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک آبی پرندہ ہے۔ ایک خاص موسم میں اُڑ کر اِدھر آتا ہے اور پھر واپس چلا جاتا ہے۔ اِس کا روغن ایک فرضی بات معلوم ہوتی ہے خاص طور پر اس لئے کہ کہ روغنِ قاز ملنا ایک محاورہ بن گیا ہے اور اس کے معنی ہیں جھوٹ سچ بول کر یا خوشامد کر کے دوسروں کو بیوقوف بنانا اور یہی صورت حال ہمارے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔