اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
آستین کا سانپ ہونا یہ بھی سماج میں موجود افراد کی برائیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سانپ خود بھی بطورِ محاورہ اور علامت استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی نہیں بلکہ سانپ ہے۔ اس معنی میں سانپ گویا بدترین دشمن ہوتا ہے اور آستین کا سانپ وہ ہوتا ہے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہو، ہمارا ہم درد ہو اور مخلص نظر آتا ہو لیکن در پردہ ہمارا دشمن ہو۔ سماج میں اس طرح کے کردار بہر حال موجود ہوتے ہیں ۔آستینوں میں بُت چھُپائے رکھنا یہ محاورہ ایسے موقعوں پر بولا جاتا ہے جب انسان عقیدہ و خیال کو چھُپائے رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور ظاہر کچھ اور کہا جاتا ہے۔ یہ روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ جو دراصل بُت پرست تھے، جب نماز پڑھنے مسجد میں آتے تو اپنی آستینوں میں بت چھپائے رکھتے اور اس طرح ایک منافقانہ کردار ادا کرتے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبال نے یہ شعر کہا ہے۔ اگر چہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللّہاِس کان سننا، اُس کان اڑا دینا معاشرے کا لا پروائی والا رویّہ اُس کے پس منظر میں موجود ہے کہ وہ کسی کی اچھی سچی بات اور فریاد بھی سننا نہیں چاہتا۔ ویسے داستانیں ، قصّے، کہانیاں گھڑی بھی جاتی ہیں ، سنی بھی جاتی ہیں اور سنائی بھی جاتی ہیں ۔ لیکن معاملے کی باتیں نہ کوئی سننا چاہتا ہے، نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے یہ رویّہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور روزمرہ کے تجربے کا حصہ ہے کہ آدمی دوسرے کی بات کو سُنی ان سنی کر دیتا ہے۔ اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کان سے سنتے ہیں اور اس کان سے اڑا دیتے ہیں ۔