اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
شریک ہوتی ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، معاشرہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اور دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں ، جھُوٹ سچ اور غلط سلط طریقہ سے دھوکا دیتے رہتے ہیں ۔ اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور جو زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایک کے ساتھ انصاف اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے اور آپ کو مصیبت میں ڈالے۔ اتفاقی طور پر کچھ باتیں ضرور ہو جاتی ہیں اور وہ بہت بڑے نقصان اور فائدے کا سبب بنتی ہیں ۔ مگر سبب بہرحال اُن کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھنا ہم جن معاشرتی کمزوریوں ، برائیوں اور عیبوں کا شکار ہیں ، اور نہ جانے کب سے رہے ہیں ، اُن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں ، سمجھتے ہیں ، اُن پر تنقید کرتے ہیں ، طعن و تعریض کرتے ہیں ؛ وہ خود ہم میں ہوتے ہیں ۔ لیکن نہ ہم کبھی اپنی طرف دیکھتے ہیں ، نہ ان کا اعتراف کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہم اپنے خاندان، اپنے عزیز اور اپنے گروہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ عیب اُن میں بھی ہیں ۔ صرف دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں ۔ یہیں سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں ، دوسروں کے رویّے میں اختلاف کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے گریبان میں تو منہ ڈال کر دیکھو کہ تم خود کیا ہو، تمہارا اپنا کردار کیا ہے۔ تمہاری اپنی انسانی خو بیاں کیا ہیں اور کتنے عیب ہیں جو تمہارے اندر بھرے ہوئے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ صرف کوئی سیدھا سادہ محاورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی ماحول اور آپسی رویّوں پر ایک تبصرہ ہے۔اپنی اپنی پڑنا آدمی خود غرض تو ہوتا ہی ہے، اس کی معاشرتی زندگی اور آپسی معاملات کے تلخ تجربے اس کی انسانی فطرت کو زیادہ گرد آلود کر دیتے ہیں ۔ گاہ گاہ ہمارا ماحول اس طرح بدلتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے لیے جواز تلاش کر لیتے ہیں اور بے طرح خود غرضیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا یا اِن کے کام آنا، اُن کے مسائل سے دل چسپی لینا، اپنی مجبوری کے تحت ہو۔ آدمی صرف اپنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے؛ اپنی ضرورتوں کی