اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہمارے ہاں معاشرے میں حسن عقیدت کے طور پر یہ بھی خیال پایا جاتا ہے کہ فلاں عمل پڑھنے سے اور ایک خاص وقت پر اس کو بار بار پڑھنے سے وہ کام بن جاتے ہیں جو بظاہر بہت مشکل ہوتے ہیں یا ہوتے نظر ہی نہیں آتے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بعض عمل پڑھنے میں کیسی غلطی یا خرابی کی وجہ سے اُلٹ جاتے ہیں اور عمل پڑھنے والا کسی نہ کسی تکلیف یا نقصان کا شکار ہو جاتا ہے اب تو اس کا رواج کچھ کم ہو گیا پہلے یہ باتیں اکثر سننے میں آتی تھیں اور لوگ عمل پڑھتے نظر آتے تھے۔عُنقا ہو جانا یا ہونا آدمی شروع ہی سے پرندوں سے دلچسپی لیتا رہا ہے یہاں تک کہ اُس نے کہانیاں اور داستانیں گھڑ کر اس طرح کے کردار پرندوں میں بھی پیدا کر دیئے جو واقع نہیں ہیں مگر اپنے طور پر عجیب و غریب کردار ہیں جیسے رخ اور سیمرغ پرندے جو بہت بڑے ہیں اور جن کے بارے میں خیال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے پنجوں میں ہاتھیوں کو لیکر اڑ جاتے ہیں ایسے پرندے بھی فرض کئے گئے جو گیت گاتے ہیں اور اُن سے گیت اُن کے اپنے وجود کو جلا کر بھسم کر دیتے ہیں اور پھر وہ اپنی راکھ سے جنم لیتے ہیں ۔ "ققنس" اسی طرح کا ایک فرضی پرندہ ہے"ہما"کے نام سے ایک ایسے فرضی پرندہ کا تصور بھی ہو جاتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم مصری شہنشاہ (فرعون) اپنے سرپر ایک پرندہ نشان بنائے رکھتے ہیں غالباً ہما اب بھی اس کا تصوّر ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ لڑکوں کا نام ہمایوں اور لڑکیوں کے نام ظلِ ہما رکھے جاتے ہیں " عنقا" ایک ایسا پرندہ ہے جس کا تصور چین میں خاص طور پر پایا جاتا ہے کہ وہ ہے بھی اور نہیں بھی اسی لئے جو چیز غائب ہو جاتی ہے اس کو محاورے کے طور پر کہتے ہیں وہ تو عنقا ہو رہی ہے یعنی کہیں ملتی ہی نہیں ۔عیب جُوئی کرنا، عیب ڈھونڈنا، عیب لگانا ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم آدمی کی خو بیاں نہیں دیکھتے اس کی نیکیوں پر نظر نہیں کرتے بلکہ خواہ مخواہ بھی اس کے کردار میں طرح طرح کے عیب نکالتے ہیں ۔ اور کوشش یہ رہتی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو عیب تلاش کئے جائیں یا عیب تراشے جائیں اور جو خرابیاں یا خامیاں کسی میں نہ ہوں