اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
یا یہ مصرعہ مٹھی میں ہوا کو تھا منا کیا وہ آدمی جو بلا وجہ موٹا ہوتا ہے اُس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو باؤ بھری کھال ہے۔ یہ ایک طرح کی بیماری ہے۔ لیکن اس کا اِطلاق انسانی رویوں پر بھی ہوتا ہے اور یہ سماج کا مطالعہ بن جاتا ہے اسی کے ذیل میں یہ محاورے بھی آتے ہیں باؤ بھڑکنا، باؤ ڈنڈی پھرنا۔ وغیرہ۔باہر کا ہونا باہر کر کے، باہر کرنا، باہر کی بو، باہر کی پھرنے والی، باہر والا، باہر والی شہری لوگوں میں یہ رو یہ ہوتا ہے۔ کہ وہ باہر کے لوگوں کو پسند نہیں کرتے نہ ان کی زبان کو پسند کرتے ہیں نہ ان کے طور طریقوں کو ان کے نزدیک وہ سب باہر کی باتیں ہیں اسی لئے وہ کسی کی بات کو باہر نہیں جانے دیتے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ محاورہ اس طرح استعمال ہوتا ہے کہ گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی یعنی کوئی بات اس گھر سے باہر نکلنی نہیں چاہیے۔ باہر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نکال کر باہر پھینک دینا اور فالتو سمجھنا نفرت کا اظہار کرنا باہر کی بُو یعنی باہر سے آنے والی روش کو اختیار کرنا یا اس کی خواہش کرنا یہ اور اس طرح کے محاورات شہری نفسیات کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتے ہیں دہلی والے اپنی تہذیب اپنے رسم و رواج اور اپنے محاورے پر بہت ناز کرتے تھے اسی لئے وہ باہر کے لوگوں کی کسی بات کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے تھے۔ اور ان کے یہاں مردُم بیرونِ جات کا لفظ استعمال ہوتا تھا جس کے معنی ہوتے ہیں کہ لوگ اسی لئے ان کی زبانوں پر اس طرح کے فقرہ آتے تھے کہ تم تو دلی کی ہو باہر کی نہیں ہو۔ باہر پھرنے والی عورت ان کے خیال سے عزت کے لائق نہیں ہوتی تھی ایک خاص طبقہ پردہ پر بہت زور دیتا تھا وہ دہلی سے باہر بھی تھا مگر ایک خاص طبقہ تھا سب نہیں جو باہر کی پھرنے والی عورت کو بھی برا سمجھتا تھا اور اس