اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنے سماجی رویوں میں جائز اور نہ جائز حدود کا خیال نہیں رکھتے یہ آدمی کا عام ذہن ہے اور ہمارے معاشرے کی کمزوری ہے اسی سے پرچھاویں سے بچنا یا دُور بھاگنا بن گیا۔پردہ ڈالنا یا اٹھا دینا، پردہ پوشی، پردہ داری، پردہ ہونا پردہ ہمارے معاشرے میں ایک غیر معمولی رجحان ہے مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اپنی عورتوں کو پردہ کرواتا ہے یہاں تک کہ اس میں یہ مبالغہ برتتا ہے کہ عورت کے لئے تو آواز کا بھی پردہ ہے۔پردہ ایک حد تک ہندوؤں میں بھی رائج رہا ہے اور اب بھی ہے مگر اس شدت کے ساتھ نہیں ہے جو مسلمانوں میں پردہ داری کی رسم ملتی ہے اب اُس کا رواج کم ہو گیا ہے لیکن مسئلے مسائل کی صورت میں اب بھی جب گفتگو آتی ہے تو وہی تمام مبالغہ احتیاط اور شدت کی پرچھائیاں اس گفتگو میں ملتی ہیں ۔ باتوں کو چھپُانا بھی داخل ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ گھر کی بات باہر نہ نکلے یہ رجحان ہمارے قدیم معاشرے میں اور بھی زیادہ تھا کہ لوگ خواہ مخواہ کی باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کی کوئی کمزور ی کوئی مجبوری یا کسی شکر رنجی کا حال اُن کو معلوم ہو جاتا ہے تو وہ اس کو بری طرح اڑاتے ہیں مشہور کرتے ہیں اسی لئے وہ محاورہ آتا ہے کہ گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی یا منہ سے نکلی بات پرائی ہو جاتی ہے بعض باتوں کو چھُپانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ دوسروں کی ان باتوں کا پہنچنا اچھا نہیں لگتا ہے کہ راز داری ہماری سماجی ضرورتوں کا تقاضہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم کتنی بات ضرورت کے تحت کرتے ہیں اور کتنی بات غیر ضروری طور پر۔ اس طرح پردہ داری ہو پردہ نشینی ہو پردہ گیری ہو یہ سب ہمارے معاشرتی رویوں کا حصّہ ہیں ۔ اور اِن سے موقع بہ موقع ہماری سوچ کا اظہار ہوتا ہے راز درون پردہ جیسی ترکیبیں بھی اسی ذہنی رو یہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں پردہ ہے پردہ عام طور پر ہمارے گھروں میں بولا جا تا ہے۔پلیتھن نکالنا یا نکلنا گھریلو سطح کی زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے لفظوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محاورے چیوں کا محاورہ ہے پیلتھن نکالنا زیادہ سے زیادہ مکے یا مکیاں لگانا